صحافت کی قبائے دلفریب اوڑھ کر حریمِ لفظ کا تقدس پامال کرنے والے


وطن عزیز میں یوں تو ایوان اقتدار سے لے کر منبر ومحراب تک ہی افراتفری، نارسائی، بدعنوانی اورلوٹ کھسوٹ خودروجڑی بوٹیوں کی طرح اگی ہوئی ہیں، مگر جس قدر صحافت جیسے مقدس اور محنت طلب شعبے میں کالی بھیڑیں دَر آئی ہیں،یہ بجائے خود المناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے، صحافت کو آزاد جمہوری ریاست میں چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور قومی اخبارات ہمیشہ جمہوریت کا ایک پایہ رہے ہیں، ہمارے ملک میں قومی ذہن کی ساخت انہی اخبارات کی مرہون منت ہے، فلاح عامہ، خبروں اور معلومات کی فراہمی، عوامی حقوق کی علمبرداری، معاشرتی روایات کا احترام،یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ہمارے قومی اخبارات آداب صحافت کا قصر تعمیر کرتے ہیں، مگر بدقسمتی سے انہی اخبارات میں کچھ ”گھس بیٹھیئے” زرد صحافی کا کردار ادا کر کے اخبار کی نیک نامی خاک میں ملانے کا سبب بنتے ہیں، بڑے شہروں کے متعلق تو ہمیں زیادہ معلومات نہیں ہیں مگر ہمارے شہر (اوچ شریف ) اور اس کے گردونواح میں متعین نامہ نگاروں کی فوج ظفر موج صحافت کو مشن کی بجائے تن ونوش کے چارے کے لئے استعمال کرتی ہے، دشت نجد کے یہ مجنوں دراصل گھی میں تر بہ تر چُوری کی تلا ش میں رہتے ہیں اور وہ جہاں سے بھی ملے اپنی گمشدہ میراث سمجھ کر اچک لیتے ہیں، ان کا کردار احمد فرازکے اس شعر کے مصداق ہوتا ہے کہ
بس اس قدرتھا کہ دربار سے بلاوہ تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے تھے
اس امر میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ کئی علاقوں میں بھی ضمیر کے پاسدار اور پروفیشنل صحافی موجود ہیں جو اپنے کام کے معاملے میں انتہائی مخلص اور محنتی ہیں، جو صحافت کو مشن سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو تسلی کرواتے اور منواتے ہیں، مگر کیا کیجئے ہر شہر میں ایک گروپ ایسا بھی ہوتا ہے جن کا قلم و قرطا س سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور وہ حبیب جالب کے الفاظ میں قلم کو فقط ”ازاربند” ڈالنے کے لئے ہی استعمال کرتے ہیں ، ان کی خبریں اخبارات میں لگ جاتی ہیں اس لئے انہیں بلیک میل کرنے کے وسیع مواقع میسر رہتے ہیں، کئی جگہ پر تو اخبار کی ایجنسی پر ہی نامہ نگاری کا کارڈ ملتا ہے، بس یہ کارڈ اہل علاقہ اور سرکاری ملازمین کے لئے وبال جان ہوتا ہے، معروف کالم نگار جناب عطاالحق قاسمی اپنے ایک کالم میں ”پریس کارڈ” کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ”میرے ایک عزیز دوست نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک قومی اخبارجس نے پیسوں کے عوض شہروں حتیٰ کہ دیہاتوں میں بھی انگنت نامہ نگاروں مقرر کر رکھے ہیں، گجرات کے کسی قریبی گاؤں سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان اس اخبار کا پریس کارڈ لے کر گجرات پہنچا تو خود کو انتہائی بااختیاراور ہر قسم کی سہولیات کا مستحق سمجھنے لگا، چنانچہ جب وہ تانگے کے ذریعے اپنے گاؤں کا چار میل کا فاصلہ طے کر کے منزل پر پہنچا اور کوچوان نے معمول کے مطابق پانچ روپے کرایہ طلب کیا تو اس پریس کارڈ ہولڈر نوجوان نے کہاکہ میں صرف دو روپے کرایہ دوں گا، تم مجھ کو نہیں جانتے؟ کوچوان نے جواباً کہاکہ آپ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ میرا تعلق پریس سے ہے، میں فلاں اخبار کا نامہ نگار ہوں،صحافیوں کو ہوائی جہاز، ریل،بس غرض ہر جگہ کرایہ میں رعایت ملتی ہے، کوچوان نے کہا کہ نوجوان تم مجھ کو بھی نہیں جانتے، اسی اثنا میں اس نے اپنے تہہ بند کی ڈب سے اپنا پریس کارڈ نکالا اور بتایا کہ میں فلاں رسالہ کا بیوروچیف ہوں، میں تم سے پانچ روپے ہی کرایہ وصول کروں گا”۔
یقیناًمندرجہ بالا ”واقعہ” ہمارے ”صحافتی” حالات کی حقیقی عکاسی کرتا ہے، جن لوگوں کو اپنے دستخط کرنا بھی نہیں آتے ،وہ اپنے آپ کو بڑے اخباروں کا رپورٹر ظاہر کر کے علاقہ بھر کے سرکاری محکموں اور عہدیداروں کی ناک کا بال بنے رہتے ہیں اور جن بے چاروں کو صحافت کی تعریف تک معلوم نہیں ہوتی وہ جب صحافی کہلاتے ہیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے، دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں کے نامہ نگاراکثر سفارشی بنیادوں پر ”بھرتی” ہوتے ہیں، وہ صحافت کے بل بوتے پر تمام مراعات تو سمیٹتے ہیں مگر خبر نگاری کا اول توسلیقہ نہیں ہوتااور اگر لکھنا بھی چاہیں تو علاقے کے بڑوں سے ناراضی نہیں مول سکتے، غالباً اسی بنا پر نہ تو جرائم میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، پولیس سمیت کئی محکموں کے افسران سے صحافیوں کے ”ذاتی” تعلقات سے جرائم بجائے ختم ہونے کے پروان چڑھتے ہیں، اس” سہولت کاری ”سے کتنے ہی مظلوموں کی داستانیں صحافی تکے کبابوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، چھوٹے شہروں میں عام طور پر یہ مخلوق تھانیدار کے پاس ظہرانہ فرماتی ہے اور جو مزاج یار میں آئے وہی خبراگلے روزاخبارات کی زینت بنتی ہے،ضلعی اور علاقائی سطح پر صحافتی تنظیموں کے انتخابات جیتنے کے لئے امیدوار خاروخس پر صحافت کی قبائے دلفریب سجا دیتے ہیں، ایسے لوگ نہ صرف فن صحافت بلکہ قومی زبان اردو سے بھی شرمناک حد تک نابلد ہوتے ہیں اور عظیم فلسفی خلیل جبران کے الفاظ میں جن کا کام ہی انسانی زخموں کی تجارت کرنا ہوتا ہے، صحافت کا میدان ، میدان جنگ کی طرح ہوتا ہے اور اس میں تلوار کا کام قلم سے لینا پڑتا ہے، جس طرح غیر تربیت یافتہ سپاہی جنگ میں شکست کا سبب بن سکتے ہیں بالکل اسی طرح غیر تربیت یافتہ صحافی بھی اس مقدس پیشے کو داغدار کرنے کا باعث بنتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے غیر رجسٹرڈ گاڑیوں پر پریس کی سبز نیم پلیٹ لگا کر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تو عام سی بات ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو صحافت کے متعلق اتنا ہی جانتے ہوں گے جتنا کہ آئن سٹائن اردو کے بارے میں جانتا ہو گا، ان میں سے بھی زیادہ تعداد ان لوگون کی نکلے گی جو اپنے گھر میں بیوی بچوں کے کپڑے ”پریس” کرتے ہیں، بہت کم لوگ ہوں گے جو اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لئے سچے دل سے کوشاں ہوں گے، کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ شہر یا قصبے میں یک صاحب خبر لکھنے کا کچھ سلیقہ رکھتے ہیں تو باقی ”صحافی” انہیں سے لکھوا کر اپنے اپنے اخبارات کا پیٹ بھرتے ہیں۔
یہاں تک تو صحافت کی مجموعی حالت کا مرثیہ تھا، ان حالات کے مداوا کے لئے چند تجاویز حسب ذیل ہیں۔
ہر نامہ نگار کی کم از کم تعلیمی قابلیت کم از کم ایف اے ضرور ہونی چاہیئے۔
عملی تجربہ کم ازکم پانچ سال کا لازمی ہونا چاہیئے۔
تقرری سے قبل ایڈیٹر یا ریذیڈنٹ ایڈیٹر امیدوار سے خود انٹرویو لیں۔
ہر اخباری ادارہ اپنے نمائندوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے ایک علیحدہ شعبہ قائم کرے۔
مرکزی دفتر کی طرف سے مقرر کی گئی مانیٹرنگ ٹیم وقتاً فوقتاً علاقے کے نامہ نگار سے متعلق عوامی آراء اکٹھی کرے۔
ہر نامہ نگار کی ارسال کردہ خبروں کا تجزیہ کیا جائے کہ علاقے میں سماجی برائیاں کس قدر ہیں اور ان میں صداقت کتنے فیصد ہے ، اس کے علاوہ خبروں میں سرکاری محکموں ، سیاسی و سماجی حلقوں اور شخصیات کی مخالفت و موافقت کس قدر ہے اور کیوں ہے۔
کوئی نامہ نگار کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کا عملی رکن یا معاون نہ ہو، ایسے کسی بھی صحافی کی نمائندگی ختم کر کے اس کے بدلے ایسے آدمی کو نامہ نگار مقرر کیا جائے جو اچھی شہرت اور غیر جانب دار شخصیت کا مالک ہو،اس کے علاوہ اسے اخبار کی پالیسی، ملکی قوانین اور صحافتی ضابطہ اخلاق کا پورا علم ہو۔
اخبارات اور اخبار نویسوں سے متعلق یہ دردمندانہ تلخ وشیریں گزارشات محض تعمیری اور اصلاحی نقطہ نظر سے پیش کی گئی ہیں، ممکن ہے کہ ہمارے ان الفاظ سے بعض حضرات کی دل آزاری ہوئی ہو لیکن ہمارا ایسا ہرگز کوئی مقصد نہیں، ان حقائق کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).