یہ ورثہ مرکر بھی نسلوں کو دےجائیں گے!


ہر نئے دِن کا سورج اپنی روشن تاب کِرنوں کے ساتھ نئی اُمیدیں، اُمنگیں انسان کی جھولی میں ڈال جاتا ہے۔ ہر دِن انسان کے لیۓ ایک نیا پیغام دیتا ہے، بعض اوقات وہ حالات و واقعات انسان کی ذہن کی قرطاس پر نقش ہوجاتے ہیں۔ عاشور کے دِن کی مصروفیات سے فارغ ہوکر دوسرے دِن میں نے سوچا کہ کمانگر بھائی سے حال چال پوچھ لوں کافی دِن ہوگئے ہیں۔ کمانگر حسین بھائی شکار پور میں مقیم ہیں؛ اور عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے بھائی کہتا ہوں۔

ابھی ہماری روز مرہ کے حالاتِ ذندگی کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے کہ شکار پور میں بھی محرم ساتھ خیریت کے ساتھ گذر گئے۔ کمانگر بھائی نے ایک واقعہ سنایا، جو میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔ دراصل عاشور والے دن صبح آٹھ بجے سے بارہ، ایک بجے تک کا درمیانی وقت ایسا ہوتا ہے، جب شہر کے تمام تعزیے (جلوس و ماتمی دستے) مرکزی امام بارگاہ میں شبِ عاشور رات بھر عزاداری کے بعد اپنی اپنی امام بارگاہوں کو واپس جا چکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یومِ عاشور کا مرکزی جلوس ڈیڑھ بجے کے قریب برآمد ہونا ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس درمیانی وقفے میں کوئی خاص سرگرمی نہیں ہوتی؛ اور چوک چوراہے بھی قدرے خالی خالی دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں اکثر سُنسان ہوتا ہے۔

کمانگر حسین بھائی بتاتے ہیں کہ لگ بھگ صبح ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا کہ میں لکھیدر چوک پر قائم اپنے ابتدائی طبی امدادی کیمپ میں زمین پر اینٹ کو تکیہ بنائے لیٹا ہوا کوشش کر رہا تھا کہ کسی طور نیند آجائے تاکہ تین شب و روز کی مسلسل بیداری سے پیدا ہونے والی ابتر طبعی کیفیت میں کچھ کمی ہوجائے، ابھی نیند آنے ہی لگی تھی کہ کانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی آوازوں میں “حسینیت زندہ باد، یزیدیت مردہ باد” کے نعرے سُنائی دیئے۔

آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ پانچ، چھ چھوٹے چھوٹے بچے گھنٹہ گھر کے قریب سے گذرتے ہوئے مرکزی امام بارگاہ کی طرف گامزن ہیں۔ جِن کے کاندھوں پر دو لکڑیاں ہیں اور ان لکڑیوں کے اوپر ٹِکی پیک بِسکٹس کے خالی ڈبے رکھے ہوئے ہیں، یعنی انہوں نے اپنا ایک تعزیہ بنایا ہوا تھا۔ پہلے پہل تو میں یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ مُسکرا دیا؛ اور اسی مسکراہٹ کے پیچھے آنکھوں سے آنسوٶں کے موتی جاری ہوگئے۔ امام حُسین علیہ سلام کے ننھے ننھے عزاداروں کا یہ جلوس محض جلوس نہیں تھا بلکہ مجھے ہم سب عزاداروں کی اپنے مولا کے حضور خدمت کی سندِ قبولیت نظر آرہی تھی۔ آج انہوں نے بِسکٹ کے ڈبے بطور تعزیہ نہیں اٹھائے بلکہ ہمیں یہ تسلی دی ہے کہ آپ فکر نہ کریں آپ ہوں نہ ہوں امام عالی مقام ؑ کی عزاداری اسی آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گی۔

یہ واقعہ سُن کر میرے دِل میں عجیب کشمکش پیدا ہوگئی۔ اب ذرا سوچئیے اِن بچوں کے معصوم اذہان سے جاری ہونے والے “یزیدیت مردہ باد” کے نعرے سُن کر ِفکرِ یزید کو اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہوگا۔ شکار پور وہ شہر ہے جہاں گزشتہ سالوں پہلے حالات کافی کشیدہ تھے۔ شہر میں عزاداری کو روکنے کے لیئے کیا کیا حَربے استعمال نہ کیے۔ کبھی بم دھماکے کرکے ہراساں کیا، کبھی سڑکیں بند کر کے محصور کرنے کی کوشش کی، کبھی جلوسوں پر فائرنگ کی، مگر سب کے سب حَربے ناکام رہے۔ بڑے تو بڑے بچوں نے بھی اِن حرکات کو سنجیدہ نہیں لیا۔

مجھے کمانگر بھائی کی یہ کہانی سن کر ندیم سرور صاحب کا ایک جملہ یاد آیا، جو اِنھوں نے نوحہ خوانی کے اختتام پر کہا تھا کہ ” یہ چراغ جلیں گے، تو روشنی ہوگی ہم اور آپ کی عمر تو توبہ کی ہے، اگر اب بھی مولوی صاحب نہ سمجھ آۓ تو دیر نہیں ہوگئی۔ اِن بچوں کی سمجھ میں آنا چاہے کہ عزاداری کیا ہے، جیسے ہمیں بچپن میں سمجھ آگیا تھا۔” میری تو یہ دُعا ہے کہ پاک پرودگار اِن معصوم عزاداروں کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں، ان کے والدین کو روزِ محشر محمد و آل محمد کی شفاعت نصیب فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).