10 سالہ امل کی موت: ’کاش کسی بھی والدین کو اتنی بہادری کا مظاہرہ نہ کرنا پڑے۔۔۔‘


امل

10 سالہ امل کراچی میں سٹریٹ کرائم کی ایک واردات کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئیں

13 اگست کی رات کا ذکر کرتے ہوئے بینش اور عمر عادل کے چہرے پر دکھ اور غم کے ساتھ ساتھ غصے کے جذبات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس رات پیش آنے والے واقعے نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ یہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو بہت ہمت اور بہادری سے سنبھال تو رہے ہیں لیکن کاش کسی بھی ماں باپ کو اپنی زندگی میں ایسی بہادری کا مظاہرہ نہ کرنا پڑے۔

بینش اور عمر 10 سالہ امل کے والدین ہیں جو گذشتہ ماہ کراچی میں سٹریٹ کرائم کی ایک واردات کے دوران پولیس اور جرائم پیشہ شخص کے مابین فائرنگ کے تبادلے کا شکار ہوئی۔

13 اگست کی رات جب سارا شہر سڑکوں پر نکل کر جشن آزادی کی خوشیاں منا رہا تھا تو 10 سالہ امل اور ان کے والدین ایک کنسرٹ دیکھنے جارہے تھے۔

ٹریفک کے رش سے بچنے کے لیے عُمر نے کراچی کے علاقے ڈیفینس کے خیابانِ اتحاد سے جانا مناسب سمجھا، لیکن وہاں موجود ایک سگنل پر رکتے ہی اُن کی زندگی بدل گئی۔

امل کے والدین کے بقول سگنل پر رکی گاڑیاں لوٹنے والا ایک ڈاکو جب ان سے فون اور پرس چھین کر پلٹا تو پچاس فُٹ کے فاصلے پر موجود پولیس اہلکار نے اُس پر فائرنگ کر دی اور ان میں سے ایک گولی گاڑی کی ڈّگی اور سیٹ سے ہوتے ہوئے وِنڈ سکرین کے راستے باہر نکل گئی۔

پاکستان

امل کے والدین، عمر عادل اور بینش عمر

فائرنگ رُکنے پر جب بینش نے پیچھے مُڑ کر اپنی دونوں بیٹیوں، 6 سالہ آنیہ اور 10 سالہ امل کو دیکھا تو آنیہ خوف سے مستقل چیخ رہی تھی جبکہ امل ساکت تھی۔

کچھ ہی لمحوں میں بینش کو پتا چل گیا تھا کہ امل فائرنگ کا نشانہ بن چکی ہے۔

کچھ عرصے بعد بینش عمر نے پاکستانی اخبار ڈان میں اس واقعے کے بارے لکھا اور جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں اپنی کہانی بیان کی، جس کے نتیجے میں اخباروں میں اکثر دو کالم پر چھپنے والی ڈکیتی کی خبر کو ایک چہرہ اور نام اور مل گیا۔

واقعے کے بعد پولیس کے تین بیان سامنے آئے، جن میں اس علاقے میں موجود پولیس کے عملے پر سے ذمے داری ہٹانے کی پوری کوشش کی گئی۔

لیکن واقعے کے تین دن بعد ہی ڈپٹی انسپکٹر جنرل (جنوبی) جاوید اوڈھو نے دوبارہ تحقیقات کروائیں اور ایک پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ 10 سالہ امل کی ہلاکت پولیس کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی ہے۔

اس بات کی تصدیق عمر عادل کی گاڑی کی ڈّگی پر موجود گولی کے ایک انچ کے سوراخ سے بھی کی گئی۔

جرم

پولیس کے پاس موجود زیادہ تر اسلحہ دراصل فوج کا استعمال شدہ ہے جو فوج اپنے استعمال کے بعد ان کو بھیج دیتی ہے۔

پولیس کے پاس بھاری ہتھیار ضروری ہیں؟

ڈی آئی جی جاوید اوڈھو نے کہا کہ جس پولیس افسر کی رائفل سے بّچی کو گولی لگی اس کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو کلاشنکوف دینے کے رواج کو بدلنا پڑے گا کیونکہ اس کا استعمال خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

امل کے والدین کو تفتیشی افسران نے بتایا کہ پاکستان میں پولیس کے پاس کلاشنکوف رکھنے کا رجحان 80 کی دہائی میں افغانستان میں رُوسی جنگ کے دوران سامنے آیا جب ایک بڑی تعداد میں اسلحہ افغانستان کے راستے پاکستان میں لایا گیا۔

پولیس کے پاس موجود زیادہ تر اسلحہ دراصل فوج کا استعمال شدہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سڑکوں اور گلیوں کی حفاظت کرنے کے لیے پولیس کے پاس کلاشنکوف جیسے ہتھیار ہونا ضروری ہے اور کیا اس کے کُھلے عام استعمال پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے؟

اس واقعے کے بارے میں بینش اور عمر کے سوالات وہی ہیں جو بیشتر پاکستانیوں کے ہیں، لیکن جو عموماً زیادہ تر منظرِ عام پر نہیں آتے۔

تاہم اس واقعے کے ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی امل عمر کے والدین کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات میں کمی نہیں آئی ہے۔ بلکہ بہت سے والدین اپنی آپ بیتی ان سے بانٹنے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔

جرم

آواز اٹھانے سے تبدیلی آ جائے تو اچھی بات ہو گی

بینش عمر اور عمر عادل پیشے کے لحاظ سے فلمساز ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میڈیا کے سامنے اپنی بیٹی امل کی ہلاکت کے واقعے کا ذکر کرنے کا فیصلہ دونوں نے مل کر کیا تھا۔

بینش نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کُھل کر بات کرنے کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ ‘سامنے آ کر رونے کو اور اپنی بات بیان کرنے کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے ہمّت کر کے اپنی بات کی۔ یہ محض ایک قصّہ نہیں ہے، بلکہ ہماری آپ بیتی ہے۔ اور اگر اس کے ذریعے ہمارا نظام بہتر ہوسکتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔’

ساتھ ہی کچھ لوگوں کی طرف سے یہ تنقید بھی کی گئی کہ بینش اور عمر امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تبھی پولیس اور میڈیا تک ان کی رسائی ہے۔

اس پر بینش کا کہنا ہے کہ ’ایسا کہنا آسان ہے، لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ ہم دونوں ہسپتال کے عملے کو ایمبولینس بلانے کی لیے بھی آمادہ نہیں کر سکے۔’

بینش کہتی ہیں کہ ’ہماری بّچی تو واپس نہیں آئے گی لیکن اگر ہمارے آواز اٹھانے سے اگر ان بےحس اداروں میں کام کرنے والے افسروں کے روّیے میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے تو یہ ایک اچھی بات ہوگی۔ اگر ڈاکٹروں اور ان کے عملے کا احتساب ہو تو اچھا ہے۔ اس وقت مجھے یہ خوف ہے کہ کہیں روز کے شور و غُل میں یہ خبر دب نہ جائے اور جو ہونے والی گفتگو ہے وہ کہیں رُک نہ جائے۔’

جرم

امل کے والدین نے بتایا کہ ان کی دوسری بیٹی چھ سالہ آنیہ اس وقت اپنی بہن کی غیر موجودگی کو نہیں سمجھ پارہی ہے

ڈان میں چھپنے والے مضمون کے فورا بعد جہاں امل کے والدین کو لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی، وہیں ایک پولیس افسر کے بیان پر بینش کو افسوس بھی ہوا۔

‘اخبار میں ایک جگہ ایک پولیس افسر کے بیان میں انھوں نے ہماری بیٹی کے ساتھ ہمدردی تو ظاہر کی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ جس پولیس کانسٹیبل نے فائرنگ کی وہ اپنی جگہ ایسا کرنے پر صحیح تھا۔

کیا اُس ڈاکو کو جان سے مارنا ضروری تھا اور کیا اس کو مارنے کے لیے کہیں بھی فائرنگ کرنا قانوناً صحیح ہے؟’

اس بارے میں کراچی پولیس کے سربراہ امیر شیخ نے کہا کہ پولیس دن میں 130 جرائم پیشہ افراد کو پکڑتی ہے اور ‘ان میں سے ہفتے میں صرف تین یا چار ہلاکتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ڈکیت ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پولیس جائے وقوعہ پر مجرم کو ہلاک کرنا چاہتی ہے۔’

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امیر احمد شیح نے کہا کہ پولیس اپنے جوانوں سے اس وقت کلاشنکوف اور دیگر بھاری اسلحہ واپس لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

‘ہم چھوٹے اسلحے پر آہستہ آہستہ واپس آرہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کے یہ کام مختلف دوارنیے میں ہو۔ کیونکہ ماضی میں کئی بار پولیس نشانے پر رہی ہے اس لیے اچانک سے کلاشنکوف یا اسالٹ رائفل کا استعمال نہیں ختم کر سکتی۔ ہاں یہ کوشش ضرور کی جا رہی ہے کہ اگر دو پولیس کانسٹیبل ہیں تو ایک کے پاس چھوٹی پستول ہو اور دوسرے کے پاس کلاشنکوف، لیکن جس کے پاس کلاشنکوف ہو وہ زیادہ نمایاں نہ ہو۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp