آف شور کمپنی اور عمران خان


عاطف اقبال

\"atifچونکہ ہم میں سے اکثریت بدعنوان ہیں، اس لئے سچ بولنا اورحقائق بتانا ہمارے معاشرے میں جرم بن کر رہ گیا ہے، عوام کو جھوٹ بولنے والے سیاستدانوں سے محبت ہے نا کہ اُن سیاستدانوں سے کوئی سروکار یا لگائو جو شفافیت پر یقین رکھتے ہوں۔ میرا دعویٰ ہے کہ جولوگ “آف شور” کا آخری لفظ “شور” بھی اردو والا شور یعنی ‌‌Noise سمجھتے ہیں ــ وہ بھی آج کل سوشل میڈیا پر آف شور کمپنیز کے متعلق رائے اور منطق دے رہے ہوتے ہیں اور ان کی منطق حلال اور حرام کے گرد ہی گھومتی ہےـ کیونکہ شور بھی تو حلال اور حرام ہی ہوتا ہے نا! جو مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر مچائیں تو حلال اور اگر ٹی وی یا کمپیوٹر کے سپیکر بجائیں تو وہ حرام ـ عمران خان نے اپنے اکاونٹنٹ کے مشورہ پر1983 میں نیازی سروسزلمیٹڈ نامی ایک کمپنی بنائی اوراُس کمپنی کے نام سے ایک جائیداد لندن میں خرید کی، یہ کمپنی بنانے کا مقصد کیپٹل گین ٹیکس سے بچنا تھا جو کہ اُس وقت لندن میں غیرملکیوں کیلئے جائیداد خرید کرنے کیلئے ایک عام پریکٹس چل رہی تھی، حقائق یہ ہیں کہ عمران خان کا نام پاناما لیکس میں نہیں آیا، عمران خان نے اگر فلیٹ خریدا بھی تھا تو یہ 1983 کی بات ھے جب وہ کائونٹی کرکٹ کھیلتا تھا، عمران خان ابھی تک پاکستان کا حکمران یا وزیر نہیں رہا جس کی وجہ سے اس پر مالیاتی کرپشن کا شبہ بھی کیا جا سکے۔ پرویزرشید مائنڈ سیٹ کے کچھ نام نہاد سیانے کہتے ہیں کہ خان 1983 کے ورلڈ کپ میں بہانہ بنا گیا اور باولنگ نہیں کروائی، کہتے ہیں کہ 2 ملین پائونڈ کا فلیٹ خرید لیا جبکہ 1987 میں اسٹامپ پیپر دیا کہ گھر نہیں ہے، اب آتے ہیں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی جانب عمران خان نے سنئہ1971 میں وورسسٹر شائر کی طرف سے کائونٹی کرکٹ کھیلنی شروع کی، انگلینڈ میں سسیکس، وورسسٹرشائر اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے کھیلا، آسٹریلین شفیلڈ شیلڈ میچز نیو سائوتھ ویلز کی طرف سے کھیلا، اس دوران 274 فرسٹ کلاس میچز اور 194 لسٹ اے میچز بطور غیر ملکی کھلاڑی کھیلا،

1969-70 میں ایک غیر ملکی کھلاڑی کی کم ازکم میچ فیس 200 پائونڈ فی یومیہ ہوتی تھی جس پر 70 پائونڈ ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی تھی اور بعد از ٹیکس 130 پائونڈ میچ فیس ملتی تھی۔ جبکہ لسٹ اے میچ کی کم ازکم فیس 1972 میں 200 پائونڈ فی یوم مقرر کی گئی تھی جس پر 70 پائونڈ ٹیکس تھا اور بعد از ٹیکس میچ فیس 130 پائونڈ بنتی ہے۔ عمران خان کی سب سے کم میچ فیس ایورج کے ساتھ فرسٹ کلاس میچز کی کمائی 219، 200 پاؤنڈ جبکہ ٹیکس 76، 720 پاؤنڈز اور لسٹ اے میچز کی کم از کم میچ فیس38، 800 پاؤنڈزاور ٹیکس 13، 580 پاؤنڈ بنتا ہے۔ یعنی عمران خان 90، 300 پاؤنڈز ٹیکس دینے کے بعد کم سے کم 167، 700 پاؤنڈز میچ فیس وصول کر چکا تھا۔ ان کمائے گئے167، 700 پاؤنڈز میں سے 110، 000 پاؤنڈزسے خان نے لندن میں فلیٹ خریدا۔ ان میں کنٹریکٹ فیس، کمرشل فیس، مین آف دی میچ اور پرفارمنس فیس شامل نہیں ہے، یاد رہے کیری فرانسس بلمور پیکر، آسٹریلوی چینل 9 کے مالک نے 1976 میں عمران خان سے ورلڈ سیریز کرکٹ کے لیے جومعاہدہ کیا صرف اسکی اُجرت210، 000 ڈالرسالانہ تھی اور خان نے تین سال کیری پیکر سیریز کھیلی ہے اور اس کی کمائی اس میں شامل نہیں کی۔ نہ ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی خدمات کے عوض معاوضہ شامل کیا، 1982 کی پاک بھارت ٹیسٹ سیریز میں خان نے 6 میچوں میں 40 وکٹیں حاصل کیں اور عمدہ باولنگ کا مظاہرہ کیا، اس سیریز کے دوران سٹریس فریکچر سے خان کی شِن ‘پنڈلی’ زخمی ہو گئی تھی، خان ایک سال کرکٹ سے دور رہا، 1983 کے ورلڈکپ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اصرار پر ورلڈکپ کھیلنے کیلئے گیا تھا، خان کو ٹیم میں شمولیت بطور بیٹسمین دی گئی، خان نے کوئی بہانہ بنا کر باولنگ کرنے سے انکار نہیں کیا تھا، سوشل میڈیاپر حقائق کو مسخ کر کے غلط رنگ دینا ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے، خان نے جنوری 83 سے جنوری 84 تک باولنگ نہیں کی ، جبکہ ورلڈکپ جون 83 میں کھیلا گیا تھا، خان کی کارکردگی بحیثیت بلے باز 56رنزبمقابلہ سری لنکا، 9 رنز بمقابلہ نیوزی لینڈ، 7رنز بمقابلہ انگلینڈ، 102رنز بمقابلہ سری لنکا، 13 بمقابلہ انگلینڈ، 79رنز بمقابلہ نیوزی لینڈ اور 17رنز بمقابلہ ویسٹ انڈیز ، کل 283 رنز 70.75 کی اوسط سے، 2 نصف سنچریاں، 1 سنچری، کیا یہ کارکردگی کسی بہانے باز کھلاڑی کی ہے؟ سوشل میڈیا پر خان کا ایک پلاٹ حاصل کرنے کیلئے جمع کروایا گیا بیان حلفی اُچھالا جا رہا ہے تاکہ عمران خان کی حق حلال کی کمائی کو مشکوک بنا کراپنی کرپشن کو چھپایا جاسکے یا عام آدمی کی توجہ ہٹائی جاسکے، عرض ہے کہ اپریل 1984 میں کرامویل ہسپتال سڈنی آسٹریلیا میں خان کی پنڈلی کا آپریشن ہوا جس کا خرچہ جنرل ضیاء الحق کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے اٹھایا، چونکہ اس وقت وزیر خزانہ نواز شریف تھے اور ہسپتال کے اخراجات کا بل انہی کے حکم سے ادا کیا گیا ہوگا، تو تیار رہیں عنقریب اس کے کاغذات بھی میڈیا میں آ سکتے ہیں اور عجیب و غریب منطق والے پرویزرشید کہتے پھریں گے کہ عمران خان احسان فراموش ہے، نواز شریف نے تو اس کے علاج کا بل ادا کیا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح 1986 میں بھارت کو بھارت میں پہلی دفعہ ہرا کر آنے والی ٹیسٹ ٹیم کو جنرل ضیاء الحق نے ان کے آبائی علاقوں میں پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے عمران خان کو لاہور میں پلاٹ دیا تھا اور کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے وہ اسٹامپ پیپر لیا تھا جو آجکل میڈیا پراُچھالا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح، جسطرح جوہر ٹائون کے ٹائون پلاننگ میپ میں جگہ ، سائٹ فار ہاسپٹل، کو نقد ادائیگی پر شوکت خانم کے لیے دینے والوں نے بعد میں اشتہار بازیاں کرکے کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کی۔ عرض ہے کہ عمران خان نے 1983 میں ایک لاکھ دس ہزار پاونڈز رقم کیساتھ ایک فلیٹ خرید کیا جو کہ اُس کی حق حلال کی کمائی تھی اورانہوں نے بعدازاں سات لاکھ پندرہ ہزار پاونڈز میں وہ فلیٹ فروخت کرکے زرمبادلہ ایچ بی ایل کے ذریعہ پاکستان منتقل کیا، دوسری جانب وہ ٹھگ ہیں جوپاکستانی دولت لوٹ کر لندن، پانامہ، سنگاپوراورجدے لے گئے۔ کیا ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ آپ نے کرپشن کرتے ہوئے بالکل نہیں ڈرنا، کرپشن کرنے کے بعد بس دوسروں کی کرپشن کو اپنا جواز بنا کر بچ نکلنے کے راستے تلاش کرنا ہیں، نونئی منطق کیمطابق وزیراعظم پاکستان کی کرپشن جائز ہے کیونکہ اپوزیشن میں بھی کرپٹ لوگ بیٹھے ہیں، درآصل اقتدار دائو پر لگا ہو تو اخلاقی اقدار کی حیثیت بیکارہوجاتی ہے۔ نواز اور زرداری آج تک احتساب سے فرار ہونے میں کامیاب رہے کیونکہ انہیں عوام کی توجہ کو تبدیل کرنا اور حقائق کو بدل کر پیش کرنے پر مہارت حاصل ہے جبکہ کچھ بکاؤ میڈیا ہاؤسز اور کرپٹ صحافی اِن کو بچانےمیں کارآمد پروپیگنڈا کرنے کی بھاری اُجرت وصول پاتے ہیں۔ ہمیں سچ بولنے والوں کا ساتھ دینا ہوگا اورحقیقی تبدیلی تب آئے گی جب ہم عوام کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، صحافیوں وغیرہ کا مکمل سوشل بائیکاٹ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments