قریبی رشتہ داروں میں شادیاں اور موروثی بیماریاں، معذوری اور موت کی اہم وجہ


اس کے علاوہ دل گردے وغیرہ کی بیماریاں بھی عام ہیں۔ اخبار ڈان کی اس خبر کے مطابق ان بچوں میں عام آبادی کے مقابلے میں سنگین پیدائشی نقص کا خدشہ 11.2 سے 35.1 فیصد ہے۔ جب کہ نارمل آبادی میں یہ تناسب 3 سے 4 فیصد تک ہے۔ اخبار ڈان (مارچ2017) کی خبر کے مطابق پاکستان میں سالانہ 250 بچے ایل ایس ڈی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جس کی طبی اصطلاح Lysosomal Storage Disorder ہے۔ ایسے بچوں کی اگر بروقت تشخیص نہ ہو تو یہ پانچ سال کی عمر سے پہلے مر جاتے ہیں۔

اس مرض کی تشخیص جلد ہونا ضروری ہے۔ لیکن طویل عرصہ بچوں کے نمونے، امریکہ، یو کے، جرمنی، آسٹریلیا اور انڈیا میں تشخیص کے لئے جاتے رہے۔ جس کے نتائج میں تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر حکومت کی ترجیحات میں غیر ضروری عیاشیاں ہوں اور تعلیم و تحقیق اور عوام ثانوی حیثیت بھی نہ رکھتے ہوں۔ وہاں ایسی لیبز کے لئے تعلیمی بجٹ کیسے نکل سکتا ہے۔ جس سے عوامی فائدہ ہو رہا ہو۔ تاہم اب اس سلسلے میں کچھ کام ہو رہا ہے۔ اور مرض کی تشخیص کے لیے اب کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں سینٹرز کھل گئے ہیں۔

امیگرینٹ پاکستانیوں کی صورتحال

بہتر معاش اور زندگی کی تلاش میں بہت سے پاکستانیوں نے مغرب کے ممالک بالخصوص برطانیہ نقل مکانی کی۔ لیکن اپنی جڑیں وطن سے کاٹنے کا تصور ان کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔ جسمانی طور پر وطن آنا کافی نہیں محسوس ہوا توانہوں نے اپنی اولادوں کی شادی پاکستانی رشتہ داروں کے بچوں سے کرنی شروع کر دی اس طرح فرسٹ کزنز سے شادی کے نتیجے میں جو اولادیں ہو رہی ہیں۔ ان میں موروثی بیماریوں کا تناسب خاصا ہے۔ مثلاً مانچسٹر، ڈربی اور لیڈز میں ہر دس میں سے ایک بچہ موروثی معذوری کا شکار ہے۔ جو عام آبادی کے مقابلے میں خاصا زیادہ ہے۔ 2011 میں برمنگھم چلڈرن ہسپتال میں ایسے پاکستانی بچوں کی تعداد 43 فیصد بڑھ چکی تھی کہ جنہیں موروثی بیماریاں ہیں۔

ان بچوں کے علاج کی رقم کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ محض 2004 میں یہ رقم دو بلین پونڈز سالانہ تھی۔ 2013 میں بڑیڈ فورڈ شہر میں بڑے پیمانہ پہ ہونے والی تحقیق جو وہاں بسنے والے پاکستانیوں پر ہوئی۔ جو اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش تھی۔ پتہ چلا کہ کزنز کے درمیان شادی کے نتیجے میں معذور بچہ کی پیدائش کے امکانات عام افراد یا غیر رشتہ دار جوڑوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتے ہیں۔

عائشہ کی کہانی:

عائشہ کا تعلق بریڈ فورڈ کے علاقے کیگلے سے ہے جہاں کی بیس فیصد آبادی پاکستانی مہاجرین پہ مشتمل ہے۔ جن کی اکثریت کا تعلق میر پور سے ہے جو آزاد کشمیر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ عائشہ کے والدین محمد اور برکت خود فرسٹ کزنز تھے۔ جن کی شادی کے نتیجے میں جو اولادیں پیدا ہوئیں ان میں سے اکثر کو اپنی عمر کی زیادہ بہاریں دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ عائشہ نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے چار سالہ بھائی سرفراز کی موت کا صدمہ جھیلا۔ عائشہ کا جڑواں بھائی ڈھائی سال کی عمر میں مر گیا۔

چارسالہ سرفراز کی موت کے دو سال بعد پیدا ہونے والا قاسم بھی سنگین میڈیکل صورتحال کا شکار ہوا۔ جس کی وجہ سے اسے چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت تھی۔ اور پھر بھی وہ اپنی اٹھارویں سالگرہ سے پہلے وفات پا گیا۔ عائشہ کی ایک بڑی بہن لرننگ ڈس ایبیلٹی کا شکار ہے۔ اتنی ڈھیر دردناک یادوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی عائشہ نے خاندان میں شادی کی روایت کو توڑتے ہوئے جرات مندی سے اپنے والدین کو کزن سے شادی سے انکار کر دیا۔ وہ نسل در نسل شادی کر کے درد کے اس رشتہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ کہ جس سے وہ خود بھی لمحہ بہ لمحہ نبرد آزما ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3