دو کرکٹ میچوں کا آنکھوں دیکھا حال


پاکستان کرکٹ ٹیم نے حالیہ دو میچوں میں اپنی عمدہ منصوبہ بندی اور عقل و دانش کے بہتر استعمال سے انڈین ٹیم کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے اور اپنے سلیکٹرز، کرکٹ بورڈ کے نئے چئرمین اور نئے پاکستان کے پرانے باسیوں کے دل جیت لئے۔

اس موقع پر نئے اور پرانے پاکستان کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ کے نئے اور پرانے چئرمین کا ذکر بھی ضروری ہے۔ کسی بے زبان چڑیا کے نام پر سیاسی پیشینگوئیاں کرنے والے مشہور و معروف لاہوری صحافی، پینتیس پنکچر فیم اور ریلوکٹوں اور پھٹیچر غیر ملکی کھلاڑیوں کی مدد سے پچھلے تین سالوں میں ملک میں کرکٹ کی سرگرمیوں کو رونق بخشنے والے، کرکٹ کے شائقین کا جان بوجھ کر دل جیتنے والے نجم سیٹھی سے جان چھڑانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس ملک میں جو تھوڑا بہت پرفارم کر جائے اُس کا دماغ ویسے ہی ٹھکانے پر نہیں رہتا اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس پرفارمنس کے بدلے میں، اُسے مزید کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ ایسے آدمی سے جان چھڑانا کوئی آسان کام نہیں تھا جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ ہی نیا پاکستان بننے میں رکاوٹ تھے۔ اگر نجم سیٹھی ڈٹ جاتے تو مشکل ہو جاتی اگر چہ ایک مقبول حکومت کے سامنے کوئی مشکل، مشکل نہیں رہتی۔

اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب ہماری ہر دلعزیز نئی قیادت اپنے متحارب ہمسایوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا چکی تھی اور ہمارے کرکٹر وزیر اعظم محبت کی پینگیں بڑھانے کی یکطرفہ پیشکش بذریعہ ایک مکتوب کر چکے تھے۔ تاہم کرکٹ کی باریکیوں سے نابلد، انڈیا کی موجودہ غیر مقبول قیادت کہ جس کو انتخابات کا مرحلہ بھی درپیش ہے، نے ہمارے وزیر اعظم کے مکتوب کو غنیمت جانا اور ہماری دوستی کی پیشکش سے تاریخی بے اعتنائی برتنے کا حربہ استعمال کیا تا کہ اپنے ملک کی عوام میں مقبولیت حاصل کر سکے جس کی درپیش سخت انتخابات میں اشد ضرورت تھی۔

یقیناً انڈیا کی اس حکومت نے پاکستان کی گزشتہ حکومت کہ جس کو کم و بیش ایسے ہی حالات درپیش تھے، کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہو گا اور اقامے، پانامے اور ہنگامے سے بھرپور کرپشن شو سے باز رہنے کی پریکٹس بھی کر لی ہو گی اگرچہ ہندوستان میں کوئی نیب جیسا ادارہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق جیسے سیاستدان کہ جن کو حکومتی کرپشن پر طیش آ جائے اور دھرنے وغیرہ دینے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھڑکھڑا دیں۔ شاید یہی سیاسی وجوہات تھیں کہ کرکٹ کا کھیل، انڈین گورنمنٹ کی ترجیح نہ بن سکا اور وہاں کرکٹ بورڈ کے پرانے چئرمین کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

نئے اور پرانے چئرمینوں کے ٹکراؤ سے جو نتیجہ سامنے آنا تھا وہ آ کر رہا اور پاکستان کی ٹیم نے دونوں میچ اپنی شرطوں پر کھیل کر مخالف ٹیم کی حکمت عملی ناکام بنا دی۔ مخالف ٹیم بڑے سکور کے موڈ میں تھی اور ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنی تمام بیٹنگ لائن کو پاکستان کی ٹیم کے سامنے لانا چاہتی تھی تا کہ پاکستان کے عمدہ باؤلرز کے سامنے کھیل کر اپنی بیٹنگ کو بہتر بنایا جا سکے۔ مگر پاکستان کی ٹیم نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ پاکستان کے باؤلرز نے، کُوچی مُوچی کی باؤلنگ کرا کے انڈیا کو پریکٹس کرنے سے محروم رکھا اور محض ایک دو بیٹسمینوں کو ہی بیٹنگ کرنے کا موقع دیا۔ اس طرح بھارتی ٹیم کے اکثر مایۂ ناز بیٹسمین پیویلین میں بیٹھے منہ دیکھتے رہ گئے اور دنیا کے بہترین باؤلرز کے سامنے بیٹنگ کرنے کی حسرت لئے سٹیڈیم سے واپس چلے گئے۔

مگر پاکستان کی اس کامیاب حکمت عملی میں فیلڈز کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گا۔ اس کامیابی میں فیلڈز کا کردار بہت عمدہ رہا اور انہوں نے اپنے باؤلرز اور کپتان کا خوب ساتھ نبھایا۔ کئی موقعوں پر پاکستانی تماشائیوں کی سانس رک رک جاتی تھی کہ بھارتی بیٹسمین کی غلط شاٹ کی وجہ سے اُس کا کیچ ہونا یقینی نظر آ رہا تھا مگر ہمارے فیلڈز کوئی عام فیلڈز نہیں تھے کہ بھارتی بیٹسمین کے جھانسے میں آ جاتے۔ سو بظاہر ایک یقینی نظر آنے والا کیچ آسانی کے ساتھ چھوڑ دیا اور ایک مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو خواہ مخواہ آؤٹ کرنے کی ملامت سے اپنے آپ کو بچا لیا۔

اُدھر بھارتی بیٹسمین، باؤلرز اور فیلڈز ایک ایک رن کے لئے جان لڑاتے ہوئے دیکھے گئے اور روایتی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اور اپنی قوم کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہے تھے۔ کئی ایک کو تو رنز بچاتے ہوئے چوٹیں بھی آئیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے اس صورتحال کے خوب مزے لئے اور ہنس ہنس کے بے حال ہوتے رہے۔ ان دونوں میچوں میں پاکستان ٹیم نے نئے چئرمین کو اپنی کامیاب حکمت عملی کے ساتھ پہلی سلامی دی جو یقیناً نئے چئرمین اور نئے پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک اچھا شگون ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).