راہل انڈیا کے وزیراعظم بنیں یا پاکستان کے؟


راہل گاندھی

بی جے پی کا کہنا ہےکہ رفائل سودے پر حکومت کو نشانہ بناکر راہل گاندھی پاکستان کی زبان بول رہے ہیں

کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی کے ذہن میں یہ سوال تو آتا ہو گا کہ انڈیا کا وزیر اعظم بننے کی کوشش کریں یا پاکستان کا رخ کریں جہاں حکمراں بی جے پی کے مطابق وہ بہت مقبول ہیں اور جو انھیں انڈیا کے اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے!

بس مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں چند ہفتے قبل ہی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اور انڈیا میں موجودہ حکومت اپنے دور کے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ تو اتنا انتظار کون کرے گا، راہل گاندھی کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہ ہی سوچتا کہ پہلے انڈیا میں ہی ٹرائی کر لیتے ہیں، بات نہیں بنی تو پاکستان میں کوشش کرلیں گے۔

راہل کی جپھی اور آنکھ مارنا کتنا معنی خیز؟

راہل گاندھی کا ‘پپو’ ٹیگ ختم!

ویسے بھی انھوں نے بہت مشکل سے “شو بھکت” (ہندوؤں کے بھگوان شو کے بھکت یا پرستار) کی امیج بنائی ہے۔ اسی ہفتے اپنے انتخابی حلقے امیٹھی گئے تھے تو ایسا لگا کہ بی جے پی کے کسی رہنما کا استقبال ہو رہا ہو، ان کی سیاست کو اب “سافٹ ہندوتوا” سے منسوب کیا جانے لگا ہے اور ہندوتوا وہ پلیٹ فارم ہے جس پر بی جے پی اپنی اجارہ داری سمجھتی ہے۔

اور اس پر رفائل جنگی طیاروں کے سودے پر تنازع۔ راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کو “کمانڈر ان تھیف” کہہ رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ انھیں فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند نے چور کہا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ خود (ملک کا) چوکیدار ہی چور بن گیا ہے اور یہ کہ انھوں نے من مانے انداز میں فرانس کے ساتھ رفائل جنگی طیاروں کا سودا کیا اور فرانس پر دباؤ ڈالا کہ “آف سیٹ پارٹنر” کے طور پر وہ انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کا انتخاب کرے۔

یہ سودا تقریباً ساٹھ ہزار کروڑ روپے کا ہے اور طیارے بنانے والی کمپنی ڈیسو کو “آف سیٹ کلاز” کے تحت تقریباً تیس ہزار کروڑ روپے کا بزنس انڈین کمپنیوں کو دینا ہے۔

فرانس کےسابق صدر اولاند نے کہا ہے کہ ریلائنس ڈیفنس کا انتخاب انڈیا کے اصرار پر ہی کیا گیا تھا۔ راہل گاندھی کا دعویٰ ہے کہ طیارے بہت مہنگےخریدے گئے ہیں، انیل امبانی وزیر اعظم کے قریب ہیں، ان پر بینکوں کا بھاری قرض ہے اور ریلائنس کو طیارے بنانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں بی جے پی راہل گاندھی کو “کلاؤن پرنس” ( مسخرہ شہزادہ) کہہ رہی ہے، کبھی ان کے مذہبی عقائد کو چیلنج کرتی ہے، کبھی ان کے ذہنی توازن پر سوال اٹھاتی ہے اور کبھی ان کی حب الوطنی پر۔

انڈیا کی سیاست میں آجکل جتنا پاکستان بکتا ہے اتنا اور کچھ نہیں بکتا۔ گزشتہ برس گجرات کے اسمبلی انتخابات میں خود وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ پاکستان احمد پٹیل کو (جو مسلمان ہیں اور کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی کے معتمد ہیں) ریاست کا وزیر اعلی بنانا چاہتا ہے اور اس بارے میں دلی میں ایک خفیہ میٹنگ بھی ہوئی تھی جس میں ایک پاکستانی رہنما اور کانگریس کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے شرکت کی تھی۔

بعد میں معلوم ہوا کہ اس “خفیہ میٹنگ” میں انڈین فوج کے ایک سابق سربراہ اور کئی ایسے سفارتکار بھی موجود تھے جو پاکستان میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ دعوت کانگریس کے لیڈر منی شنکر ائیر نے اپنے دوست اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے اعزاز میں کی تھی اور وہاں صرف انڈیا اور پاکستان کے رشتوں پر بات ہوئی تھی۔ لیکن ان باریکیوں میں کون جاتا ہے۔

راہل گاندھی

راہل گاندھی نے کہا کہ خود (ملک کا) چوکیدار ہی چور بن گیا ہے۔

الیکشن کے بعد ایک تجزیہ کار نے کہا تھا کہ اب پاکستان کچھ دنوں کے لیے گھر لوٹ سکتا ہے! لیکن انڈیا اتنا بڑا ملک ہےکہ کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ چھٹی زیادہ دن نہیں چل پائی۔

اب بی جے پی کا کہنا ہےکہ رفائل سودے پر حکومت کو نشانہ بنا کر راہل گاندھی پاکستان کی زبان بول رہے ہیں اور ان کے بیانات سے پڑوسی ملک کو تقویت مل رہی ہے۔

وفاقی وزیر روی شنکر پرساد نے منگل کو کہا کہ راہل پاکستان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور پیر کو بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے یہ غیر معمولی انکشاف کیا تھا: ’بی جے پی کے محترم صدر امت شاہ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا (انڈیا کے خلاف) ایک بین الاقوامی اتحاد بن رہا ہے؟ (اس بریفنگ میں) ہم تین پاکستانی رہنماؤں کے ٹوئیٹ پیش کریں گے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ سوال کیوں اہم ہے۔ پہلا ٹوئیٹ پاکستان کے موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا ہے جنھوں نے راہل گاندھی کے ٹوئیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے انڈیا کو نشانہ بنایا ہے اور صرف وہ ہی نہیں پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک ٹوئٹر پر کہتے ہیں کہ ’سر، راہل آپ کے اگلے وزیراعظم ہیں کیونکہ صحافیوں سے بات چیت میں وہ کافی سمجھداری کی باتیں کر رہے ہیں۔‘ تو کون ہیں وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی آگے بڑھیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ راہل گاندھی آگے بڑھیں، آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے تمام لوگ چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی آگے بڑھیں۔‘

اور پھر وہ بڑا سوال: کیا پاکستان اور کانگریس کی سوچ میں یہ یکسانیت محض اتفاق ہے؟ ’میں تو کہوں گا یہ محض اتفاق نہیں ایک سازش ہے۔‘

بظاہر یہ حکمت عملی ہے اور بہت سے تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کو بیچ میں لانے سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ رفائل سودے پر بی جے پی “پرسپشن” کی جنگ ہار رہی ہے، یعنی کانگریس کے حملوں سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اس سودے میں کچھ گڑبڑ کی گئی ہے اور حکومت اس تاثر کو زائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

رفائل کا سودا تو فی الحال کہیں جانے والا نہیں اور آئندہ برس پارلیمانی انتخابات تک پاکستان کو بھی آسانی سے چھٹی نہیں ملے گی۔

لیکن راہل گاندھی کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہوگی کہ جس بی جے پی کے سب سے قدآور رہنما اٹل بہاری واجپئی نے پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ کے بعد پارلیمان میں کھڑے ہوکر ان کی دادی اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو “درگا” ( طاقت کی دیوی جو بدی کے اوپر نیکی کی علامت مانی جاتی ہیں) سے تعبیر کیا تھا، وہی بی جے پی اب انھیں پاکستان کا ایجنٹ بتا رہی ہے!

گزشتہ ہفتے جب انڈیا نے یہ اعلان کیا تھا کہ وزیر خارجہ سشما سوراج نیو یارک میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گی، تو کانگریس پارٹی ہی وزیراعظم سے پوچھ رہی تھی کہ وہ چھپن انچ کا سینہ کیا ہوا جس کا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے وہ اتنا ذکر کیا کرتے تھے؟

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے۔

اور ہاں، جیسا کسی نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے ’بزنس آپرچیونیٹی‘ بھی ہے، اسے انڈین سیاست میں اپنے نام کےاستعمال پر رائلٹی وصول کرنی چاہیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp