ہم جنس پرستی کی خواہش کیوں ہوتی ہے؟


جب ہم جنس پرستی کی ریسرچ کا آغاز ہوا تو اسے پہلے پہل ایک نفسیاتی خرابی کے طور پردیکھا جاتا تھا۔ اس مسئلہ پر سائیکالوجی برسوں کے منظم مطالعہ کے بعد موجودہ پوزیشن پر پہنچی ہے۔ لیکن ہم جنس پرستی سے متعلق موجودہ رویے کی جڑیں مذہبی قانونی اور ثقافت کی مضبوط قدروں میں پیوست ہیں۔ قرون وسطی کے آغاز میں عیسائی چرچ ہم جنس پرستی کو برداشت کرتا یا کم سے کم چرچ کے باہر اسے نظر اندازکردیا جاتا تھا۔ تاہم بارہویں صدی کے آخر میں یورپ کے سیکولر اور مذہبی اداروں میں ہم جنس پرستی کو قابل نفرت نگاہوں سے دیکھا جانے لگا تھا۔ عیسائی مذہبی رہنما ایکویناس سینٹ اور دیگر نے اپنی تحریروں میں ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے اس کی خوب مذمت کی۔ انیسویں صدی تک ہم جنس پرستی کو فطرت کے خلاف بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔ قانون کی نظر میں یہ فعل نہ صرف قابل سزا تھا بلکہ اس کے مرتکب کو موت کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ جس کے بعد لوگ ہم جنس پسندی کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے زیادہ دلچسپی لینے لگے۔ طب اور سائیکالوجی نے اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے قانون اور مذہب کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرنے لگا۔ 19 ویں صدی کے آغاز میں لوگوں نے سائنسی طور پر ہم جنس پرستی کا مطالعہ شروع کیا۔ اس وقت سب سے زیادہ یہ نظریہ حاوی تھا کہ ہم جنس پرستی ایک بیماری ہے۔ لیکن اس نظریہ پر موثر ثقافتی اثرات صاف نظر ارہے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے وسط میں علم نفسیات میں ہم جنس پرستی سے متعلق نظریات میں تبدیلی آگئی تھی۔ ماہرین نفسیات کو یقین ہو گیا تھا کہ تھراپی کے ذریعے ہم جنس پرستی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دیگر جینیاتی اور ہارمونل نظریات بھی قبول کرلئے گئے تھے۔ ان دنوں ہم جنس پرستی کو مرض کے طور پر نہیں بلکہ مختلف حالت کے اعتبارسے دیکھا جانے لگا تھا۔

سگمنڈ فرایڈ اور ہیولاک ایلس کی طرح کچھ ماہرین نے ہم جنس پرستی پر مزید قابل قبول مؤقف اختیار کیا۔ فرایڈ اور ایلس کا خیال تھا کہ کچھ افراد میں ہم جنس پرستی عمومی نتیجہ کے طور پر ابھرتی ہے۔ الفریڈ کینسے کی ریسرچ اور مطبوعہ تحریروں میں سماجی اور ثقافتی نقطہ نظر کے تحت اس سے متعلق ابنارمل حالت سے دوری اختیار کی گئی۔ نفسیاتی مطالعہ میں اس نقطہ نظر کی منتقلی کو پہلی مرتبہ 1952 میں (Diagnostic Statistical Manual (DSM کے ورژن میں پیش کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ لیکن 1973 میں اسے حذف کردیا گیا۔

نفسیاتی تحقیق کے اہم مباحث

ہم جنس پرستی کے اہم نفسیاتی تحقیق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا گیاہے:

1۔ وہ کیا وجوہات ہیں کہ کچھ لوگ اپنی ہی جنسی کی طرف مائل ہوتے ہیں ؟

2۔ کن وجوہات کی بنیاد پر ہم جنس پرست عوامی امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔ اور کیونکر یہ متاثر کن ہوسکتا ہے؟

3۔ ہم جنس پرستی کی عادت سے کسی کی عمومی اور نقسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے ؟

4۔ موافق ساجی حالات کی تبدیلی کیلئے کونسےکامیاب طریقہ کار اختیار کئے جاسکتے ہیں ؟کیوں کچھ لوگوں کیلئے ہم جنس پرستی مرکزی شناخت رکھتی ہے جبکہ دیگرکیلئے ضمنی شناخت کی حامل ہے۔ ؟

5۔ ہم جنس پرستوں کے بچے کیسے پرورش پاتے ہیں۔ ؟

ہم جنس پسندی کی وجوہات

ہم جنس پسندی اور Bisexual ہونے کی وجوہات پر اتفاق نہیں پایا جاتا ہے۔ بہت سے مذاہب میں ہم جنس پسندی یاBisexual کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب میں اسے اختیاری طور پر یعنی آدمی کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے جدید سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی اختیاری نہیں بلکہ جینیاتی اور پیدائش سے قبل ہارمون کے زیر اثر (جب بچہ رحم مادر میں ہوتا ہے) ہوتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کی وجہ سے بھی آدمی اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ یہ بات تقریبا طے ہے کہ اب تک ہم جنس پسندی کی پختہ وجوہات کا علم نہیں ہوسکا ہے۔

اسی طرح بہت سے سائنسداں اور ڈاکٹرز متفق ہیں کہ ہم جنس پسندوں کے رویے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر اسے ایک ذہنی بیماری سمجھ کر علاج کرتے تھے لیکن آج بہت سے ملکوں میں ہم جنس پسندی کو ذہنی بیماری کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے۔ تاہم کچھ مذہبی کمیونٹیز آج بھی ہم جنس پرستی کے علاج کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ ہم جنس پرستی کے علاج کو Reparative  طب کہا جاتا ہے۔

اس قسم کے علاج میں بہت سے ہم جنس پرستوں نے خود کو (Heterosexual) یعنی جنس مخالف کی طرف مائل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ علاج سے ان میں تبدیلی بھی آئی ہے، لیکن بہت سے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ہم جنس پسندی اور مخنثانہ صفت (Transgender) صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ بہت سے مختلف انواع کے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ جیسے پینگوئن، چمپنزی اور ڈالفن میں بھی ہم جنس پرستی دیکھی گئی ہے۔ کچھ جانور تو انسانوں کی طرح زندگی بھر اس فعل کے عادی رہتے ہیں۔ اس میں جنسی فعل، محبت، دوہم جنسوں کے تعلقات اور سرپرستانہ طرز عمل بھی شامل ہیں۔

محقق Bruce Bagemihl کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنس پرست رویہ تقریبا 1500 انواع کے جانوروں میں پایا جاتا ہے۔ Bruce Bagemihl  کا یہ جائزہ 1999 میں کیا گیا تھا۔ جائزہ کے مطابق 1500 میں سے 500 جانوروں کے انواع سے متعلق بہترین دستاویزات بھی تیار کی گئی ہیں۔ مختلف جانوروں میں یہ جنسی رویے بھی مختلف شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی نوع کے مختلف جانوروں میں بھی جنسی رویہ مختلف پایا گیا ہے۔ جانوروں میں اس رویہ کے مضمرات کو مکمل طور پر سمجھنا ابھی باقی ہے۔ جبکہ کئی انواع کے جانوروں کی ہم جنس پرستی کی وجوہات کا مطالعہ کیا جا چکا ہے۔ Bagemihl  کا کہنا ہے کہ جانوروں کی دنیا میں  homosexual، bisexual  سمیت دیگر جنسی تنوع کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے۔ سائنسی برادری اور سوسائٹی کے مقابل جانوروں کی دنیا زیادہ جنسی تنوع رکھتی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3