!اک لفظِ محبت۔۔


کتابوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہی میرا ایک عجب سا رشتہ رہا جب کچھ بولنے کو جی نہ چاہا تو کتاب اٹھا لینا، کوئی سننے والا نہ ہو تو کتاب ہاتھوں میں اٹھائے کبھی آسماں تلے رات بتا دیناتو کبھی اپنی تنہائی کو بھگانے کے لئے کتابوں میں پناہ لینا اور پھر مجھے دنیا سے دور جاتے وقت نہیں لگتا تھا، خاص کر اردو ادب سے تعلق دل اور ہڑکن جیسا رہا ہے۔ شدید ڈپریشن میں کسی بھی دوا سے زیادہ اثر دکھاتا ہے۔ میرے پاس کتابوں کے انبار نہیں ہیں، شاہد سو دو سو کے قریب کتابیں ہیں جن میں ہر طرز کی کتابیں پائی جاتی ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے اس لئے وسائل بہت ہیں، جب جیب میں نئی کتاب کے پیسے نہیں ہوتے تو موبائل کی جگمگاتی اسکرین میں کوئی نہ کوئی نئی کتاب جگمگاتی پھرتی ہے۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کو دیکھا ہے کتابوں کا ریویو لکھتے ہوئے اور مجھے انہیں بھی پڑھنے میں بہت دلچسپی ہوئی۔ ہاشم ندیم، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، سعادت حسن منٹو، فرحت اشتیاق، عمیرہ احمد، نمرہ احمد، سمیرا احمد، مستنصر حسین تارڑ، آمنہ ریاض، ابنِ صفی اور ایسے بے تحاشا مصنفوں کو پڑھا، ان کی تحریریں بلا شبہ کسی شاہکار سے کم نہیں اور میں نے خود کو کبھی اتنا قابل نہیں سمجھا کہ میں ان کی کتابوں پر کسی طور کا تبصرہ کروں کیونکہ ابھی میں ادب کی چھان پھٹک میں خود کو بہت بونا تصور کرتی ہوں۔

پچھلے دنوں ایک دوست کے توسط سے تین سو صفحوں کا ایک مختصر ناول پڑھنے کا اتفاق ہوا، نیلم ریاست اس کی مصنفہ ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ آپ میں سے کتنے لوگ ان کی تحریروں سے واقف ہیں لیکن ان کی کہانی جس کا عنون“ اک لفظِ محبت ” ہے مجھے جھنجھوڑنے پر بضد ہو گیا، وہ کہتے ہیں نہ جہاں آپ کو خود کا عکس دکھائی دینے لگے تو وہ چیز آپ کو دل کے قریب محسوس ہوتی ہے تو آج شاید میرے ساتھ یہی ہوا کہ میں خود کو لکھنے سے روک نہیں پائی۔ عنوان سے مجھے یہی لگا کہ شاید پھر سے کوئی محبت کی داستان درج ہے لیکن اوراق پلٹتے پلٹتے مجھے علم ہو گیا کہ یہاں انسانی زندگی کے، ہمارے معاشرے کے وہ پہلو درج ہیں جن سے ہم روز گزر جاتے ہیں لیکن کھلی آنکھوں سے اندھے بن کے اور بولنے کی استطاعت سے خود کو محروم جان کے! محبت تو شاید زندگی کا خوبصورت پہلو ہے ہی جس پر نہ قلم رکتا ہے نہ ہی جذبات تھمتے ہیں لیکن انسانیت اس زمیں پر اب وہ مخلوق بن چکی ہیں جو محبت کا دعوی تو کرتی ہے لیکن احساس کے دائرے سے باہر کھڑے ہو کر۔ اس کہانی کی سب سے اچھی دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے میں لکھنے پر مجبور کر گئی، پہلی بات کہانی کا پلاٹ بہت ہی خوب طریقے سے پلان کیا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں معاشی مسائل کے سب سے حساس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

جنسی تشدد پر بے تحاشا لوگوں نے آواز اٹھائی اور کام بھی کیا گیا لیکن یہاں جنسی تشدد کا ذکر مختلف یوں ہے کہ اس کہانی میں ہم جنسی تشدد کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت ہی ہے اور بہت تلخ بھی۔ بچوں کا اغوا اور اس کے بعد کی زندگی ہم سب کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے، اور ان میں سے اگر کوئی بچ کے نکل بھی جائے تو اس کی آنکھوں میں چمک باقی نہیں رہتی۔ کہیں کسی نے چپ سادھ لی، کہیں کوئی تفتیش ہی کرتا رہ گیا لیکن ان حیوانوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے، گھر سے لے کر مدرسوں۔ مدرسوں سے اسکول اور پھر کب کہاں کون اس تکلیف سے گزر رہا ہو ہم نہیں جانتے، کئی کئی سال تک مائیں خود بچوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں چھپا خوف نہیں دیکھ پاتیں۔ وقت کے ساتھ اب ہم میں شعور کی سیڑھی بھی کچھ اونچی ہوئی ہے لیکن اب بھی کہیں لوگ اپنے ماضی سے منہ چھپاتے ہیں تو کہیں بتانے کی ہمت نہیں جٹا پاتے، وہ کہتے ہیں نا آپ کسی کا درد اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک خود پر نہ بیتے لیکن میری دعا ہے کہ ہم سب احساس سے دامن نہ چھڑائیں اور ہوس کے ان بے لگام گھوڑوں سے اپنے معاشرے اور ان میں جنم لیتے معصعوم کونپلوں کو روندنے سے بچا لیں، بے شک خدا کی لاٹھی بے آواز ہے لیکن یاد رہے آواز اٹھانے کا اختیار ہمارے پاس بھی ہے اور جوابدہ ہم بھی ہوں گے۔ !

کوئی نہ جانے، کوئی نہ سمجھے
کیا کچھ مجھ پہ بیت گیا ہے
اب کیوں مجھ سے پوچھ رہے ہو
! ان وحشتوں کا سبب کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).