عمران خان پر الزامات لگانے سے پہلے سوچ لیں


پاکستان میں 50 لاکھ گھر بنانے کے لئے قائم کردہ عمران خان کی ٹاسک فورس میں ایڈوائزر کا کردار نبھانے کے لئے انیل مسرت کا نام لیا جا رہا ہے۔ انیل مسرت برطانیہ میں ایک بہت بڑے پراپرٹی ٹائیکون ہیں، انہوں نے چار سے چھ بلین پاؤنڈذ کی تعمیرات کی ہیں۔ یہ برطانیہ میں مقیم امیر ترین پاکستانیوں میں سے ایک ہیں۔ یہ 2004 سے عمران خان کو جانتے ہیں اور ان کے لئے فنڈ ریزنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے لئے بھی عطیات دیے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر بعض صحافیوں کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید انہوں نے یہ گھر بنانے کا آئیڈیا انیل مسرت سے مستعار لیا ہے اور اب انہیں ایڈوائزر بنا کر اپنی دوستی کی جڑیں مضبوط کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ یہ گمان سراسر غلط ہے۔

عمران خان کوئی آصف زرداری نہیں ہیں جو دوستیاں نبھائیں اور اہم عہدوں پر اپنے دوستوں کو لگا دیں۔ عمران خان ہر فیصلہ میرٹ پر کرتے ہیں اسی لئے تو انہوں نے 50 لاکھ گھر بنانے لے لئے ایسا بندہ چنا جس کا تعمیرات کا تجربہ بھی ہے اور خوش قسمتی سے وہ برطانوی بھی ہے کیونکہ اگر وہ پاکستانی ہوتا تو ہمیں ہر وقت کرپشن کا ڈر رہتا۔ اور اب جو انہیں مختلف اجلاسوں میں عمران خان کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ وہ پاکستان کے ماحول کو سمجھ سکیں۔ عمران خان ان کی بیٹی کی شادی میں تشریف لے گئے تھے۔ ایسا دوستی میں نہیں کیا تھا وہ تو اس لئے گئے تھے کہ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔

دوستی سے یاد آیا یار لوگ زلفی بخاری کو وزیرِ مملکت بنانے پر بھی بہت چیں بجبیں ہیں کہ اب بیرنِ ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے۔ اتفاق سے یہ برطانوی شہری نیب کو مطلوب ہیں شاید نیب کو اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ زلفی بخاری تو عمران خان کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں ایسے نیک انسان کا نام ای سی ایل میں ڈال رکھا تھا وہ تو شکر ہے عمران خان کو ائیر پورٹ پہنچنے پر پتہ چلا تو انہوں نے فوری طور پر ان کا نام ای سی ایل سے نکلوایا۔ نیب کو سوچنا چاہیے تھا کہ عمران خان اپنے دوستوں کے حلقے میں کسی ایرے غیرے کو نہیں رکھتے۔ وہ بہترین لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اس کہ ایک زندہ مثال جہانگیر ترین ہیں۔

جہانگیر ترین جانتے ہیں کہ عمران خان کا وقت قیمتی ہے لہٰذا ان کے جہاز ہمیشہ عمران خان کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی لالچ کے اربوں روپے عمران خان پر وار دیے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ وہ صاحب الرائے اور صائب الرائے شخص ہیں اسی لئے ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں خواہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہو یا وفاقی کابینہ کی تشکیل کا معاملہ ہو۔ نیب نے شاید وہ ٹاک شو بھی نہیں دیکھا ہو گا جس خود عمران خان نے فرمایا تھا کہ زلفی بخاری برطانوی شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ان کا پاکستان یا پاکستان کے نیب سے کیا لینا دینا۔ سنا ہے وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں خاتونِ اول کو لانے کی ذمہ داری بھی زلفی بخاری کو سونپی گئی تھی۔ در اصل وہ برطانیہ میں عمران خان کی مہمان نوازی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، چناں چہ وہ اس مقصد کے لئے موزوں شخص تھے۔

عمران خان کی تقریب حلف برداری میں برادر اسلامی ملکوں کے بجائے صرف انڈیا سے خاص دوستوں کو بلایا گیا تھا تاکہ انڈیا سے سفارتی تعلقات بہتر ہوں، دوستی تو ایک بہانہ تھا۔ ان کا موازنہ نواز شریف سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نواز شریف مودی کے یار ہیں اور وہ سفارتی تعلقات کے بجائے اپنے تعلقات کی بنا پر بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہے ہیں، اس تناظر میں عمران خان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کو جہالت کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اب جو عمران خان نے مودی کو مذاکرات کی دعوت دی اور یو این جنرل اسمبلی کے موقع پر انڈین وزیرِ خارجہ اور پاکستانی وزیرِ خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی۔ یہ انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا تھا تاہم اگر نواز شریف نے ایسا کیا ہوتا تو پھر آپ کہ سکتے تھے کہ انہوں نے ایسا اپنے ذاتی مفاد میں کیا ہے۔

بعض عقل و خرد سے بے بہرہ لوگ عمران خان پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ ان کے بیٹے انگلینڈ میں رہتے ہیں، پاکستان میں مہمانوں کی طرح آتے ہیں۔ وہاں یہ برطانیہ کے با اثر ترین خاندان کے فرد ہیں اور ان کا مستقبل بھی برطانیہ سے وابستہ ہے ایسے میں کل اگر کسی معاملے میں پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ بطور وزیرِ اعظم کیسے برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے۔ جبکہ اس کی ایک مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے کہ جب لندن میں مئیر کے انتخاب کے موقع پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ سمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی۔

ان الزام لگانے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ایک طرف جمائمہ ہے جو خان صاحب کا طلاق کے بعد بھی اتنا خیال رکھتی ہے تو کیا وہ اس کے بھائی کی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔ اور پھر انہوں نے اپنے بیٹوں کو اس لئے انگلینڈ میں رکھا ہے تاکہ نواز شریف کو یہ بتا سکیں تم اگر اپنے بیٹوں کو انگلینڈ میں رکھ سکتے ہو تو میں بھی رکھ سکتا ہوں۔ جہاں تک دوستوں کو نوازنے اور اقربا پروری کا الزام ہے تو یہ بھی غلط ہے، چئیر مین پی سی بی کے طور پر عمران خان کے دیرینہ دوست احسان مانی کی تقرری کے موقع پر بھی ایسی باتیں کی گئی تھیں حالاں کہ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ نجم سیٹھی کے استعفے کے بعد نجم سیٹھی کی چڑیا نے ہی احسان مانی کا نام تجویز کیا تھا ورنہ عمران خان کو کیا ضرورت تھی کہ خود پر ایسے فضول الزامات لگواتے۔ اور ہاں عمران خان پر الزام لگانے والوں کو بھی یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ان کو لانے والے انہیں ایک پسندیدہ وزیرِاعظم کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور وزیر اعظم کی ناکامی کو وہ اپنی ناکامی تصور کریں گے۔ سوچ لیں کہیں الٹا آپ پر ہی کوئی الزام نہ لگ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).