محکمہ ڈاک برانچ پوسٹ ماسٹرز اور ہرکاروں کے مسائل



اسلامی تاریخ میں محکمہ ڈاک کا قیام باقاعدہ طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں عمل میں لایا گیا ،جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی اس نظام میں بھی جدت پیدا ہوتی گئی ،چنانچہ آج جہاں عام ڈاک لفافے اور بذریعہ منی آرڈر پیغام رسانی اور روقوم ارسال کی اتی ہیں وہیں جدید ذرائع مثلاً فیکس اور کمپیوٹر کو بھی استعمال کیا جاتا ہے،گو محکمہ ڈاک آج کی ترقی کے لحاظ سے پاکستان میں بہت پیچھے ہے لیکن اس باوجود اس کی افادیت ابھی تک برقرار ہے،اگرچہ آج ایس ایم،وٹس ایپ ،ای میل،موبائل،میسنجر،ایمو وغیرہ جیسی اپلیکیشنز کے ذریعے چند سیکنڈ میں قیمتی دستاویزات اورپیغامات مطلوبہ فرد تک پہنچانا ممکن ہوگیا ہے۔

محکمہ ڈاک کا وجود ہمارے شہروں کی نسبت دیہاتوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے،شہروں میں جہاں فیکس،ای میل اورکورئیرر سروس کے ذریعے دستاویزات بھیجنا آسان ہے وہیں دیہاتوں میں یہ سہولت ناپید یا کمیاب ہیں ،چنانچہ پیغام رسانی اور دستاویزات و رقوم ارسال کرنے کا واحد اور قابل اعتماد ذریعہ محکمہ ڈاک ہے۔اس مقصد کے لئے محکمہ ڈاک نے ہر چھوٹے بڑے موضع،گاؤں ،قصبہ اور دیہات میں برانچ آفسز کھول رکھے ہیں ،ان برانچ آفسز کو چلانے کے لئے عمومی طور پر دو افراد کا تقرر کیا جاتا ہے ،ایک برانچ پوسٹ ماسٹراور دوسرا ہرکارا یا پوسٹ مین،کئی مقامات پر برانچ پوسٹ ماسٹر ہی رکارے کے فرائض سرانجام دینے پر مجبور ہوتا ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک سب سے اہم اور بڑی وجہ برانچ آفسز کے ملازمین کی تنخواہیں ۔

گاؤں یا دیہات میں ڈاک میں پوسٹ آفس سے وصول کرکے لانا اور گاؤں کے متعلقہ فرد تک بحفاظت پہنچانابرانچ پوسٹ آفس کی ذمہ داری ہوتی ہے،اسی طرح گاؤں بھر کی ڈاک احتیاط کے ساتھ جنرل پوسٹ آفس تک پہنچانا بھی برانچ پوسٹ ماسٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے،گاؤں کے لوگوں کی جورقوم بذریعہ منی آرڈر آتی ہیں انہیں بھی متعلقہ فرد تک بحفاظت اور احتیاط سے پہنچانا برانچ پوسٹ ماسٹرز کی ذمہ داریوںمیں شامل ہے ۔اس کے علاوہ دیگر کئی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں جنہیں برانچ پوسٹ ماسٹر کے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس ساری بھاگ دوڑ،محنت اور جفاکشی کے نتیجے میں برانچ پوسٹ ماسٹرکو محکمہ ڈاک حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر جو معاوضہ ادا کرتا ہے ،معلوم ہونے پر آپ سوچیں گے کہ ہم شاید 1970 ء ،75 ء کی دہائی میں پھررہے ہیں ،جی ہاں !کچھ عرصہ قبل ایک برانچ پوسٹ ماسٹر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے گزارش کی کہ میں ان کے مسائل،فرائض ،ذمہ داریوں اور اس کے نتیجے میں موصول ہونے والے معاوضے کی بابت کچھ تحریر کروں ،سو آج کی تحریر اسی تناظر میں ہے۔

اوپر جو ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں ،اس ساری خجل خواری کے بعد مہینہ کے اختتام پر ہر برانچ پوسٹ ماسٹر کو مبلغ 1560 روپے سکہ رائج الوقت بطور معاوضہ ادا کیا جاتا ہے،اور اوپر راقم نے جس ہرکارے(دیہاتی پوسٹ مین)کا ذکر کیا ہے اگر وہ بھی شامل ہو تو اسے یہ محکمہ مبلغ25 روپے سکہ رائج الوقت ادا کرتا ہے بلکہ یہ 25 پچیس روپے بھی برانچ پوسٹ ماسٹر کو ہی انہی1560روپے میں سے ادا کرنے پڑتے ہیں بلکہ بعض اوقات برانچ پوسٹ ماسٹر پوری تنخواہ ہی بچارے ہرکارے کو ادا کردیتا ہے۔

ہر محکمہ کے ملازمین کوترقی ملتی ہے ،سکیل میں اضافہ اور تنخواہوں میں بھی سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہوتا ہے لیکن حیرت ناک امر یہ ہے کہ اگر کسی ملازم کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں تو یہ محکمہ ڈاک کا یہی برانچ پوسٹ ماسٹر اور ہرکارا ہے۔اگر محکمہ ڈاک کسی علاقے میں محض ایک کمرے پر مشتمل برانچ پوسٹ آفس قائم کرے اور کمرہ کرائے پر لے تو محض اس کمرے کا ماہانہ کرایہ بھی چار پانچ ہزار تو ہوگا،فرنیچر اور بجلی کا بل الگ سے شامل کرلیں،ٹیلی فون کا بل شامل نہیں کیا ،برانچ پوسٹ ماسٹر دفتر کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے وہ بھی مفت میں اور محکمہ کو بجلی کا بل بھی ادا نہیں کرنا پڑتا،گویا کم ازکم بھی ہر برانچ پوسٹ ماسٹر محکمہ ڈاک کے محض دفتر اور بجلی کے بل کی مد میں پانچ تا سات ہزار روپے کم ازکم بچارہا ہے ،اس کا صلہ محکمہ اسے محض 1560روپے معاوضے کی شکل میں ادا کررہا ہے،ممکن ہے کچھ بڑے قصبات میں معاوضے مختلف ہوں یعنی کچھ زیادہ ہوں ،لیکن چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں میں یہی صورتحال ہے۔

یہ برانچ پوسٹ ماسٹرز اور ہرکاروں کا استحصال ہی نہیں بلکہ تذلیل ہے،کئی دہائیوں سے ان کے معاوضوں پر نظر ثانی نہیں کی گئی،انہیں پنشن اور دیگر مراعات کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے،سوشل سیکورٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،محکمہ ڈاک کارپردازوں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ان برانچ پوسٹ ماسٹرز اور ہرکاروں سے بیگار لینے کا سلسلہ بند کیا جائے،یہ کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،ان کے سکیل مقرر کئے جائیں،سالانہ انکریمنٹس کا سسٹم نافذ کیا جائے،ریٹائرمنٹ کی حد مقرر کی جائے اور پنشن کی سہولت مہیا کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).