کرکٹ کپتان ہاکی گراونڈ میں


عمران حکومت کے ابتدائی ایام دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کرکٹ کے کپتان کو ہاکی کھیلنے پر لگا دیا گیا ہو۔ اب خان کے پاس جب بھی بال آتی ہے وہ ساتھی کھلاڑی کو پاس دینے کی بجاے حسب عادت زور دار شاٹ لگاتے ہیں۔ بال گراونڈ سے باہر چلی جاتی ہے یا فاول ہو جاتا ہے۔ وہ تو امپائر اپنا ہی بندہ ہے اس لئے نہ پیلا کارڈ دکھا رہا ہے نہ لال۔ کافی سارے فاول ہو گئے تو ایک دن پوری ٹیم کو ہی بلا کے چھ سات گھنٹے کھیل کے آداب سکھاتے رہے۔ خان کا یہ پہلا انٹر نیشنل میچ ہے جس کی وہ کپتانی فرما رہے ہیں۔ اس سے پہلے کے پی کے کا سائیڈ میچ وہ کھیلے نہیں باہر بیٹھ کر ہدایات دیتے رہے ہیں۔ میچ کھیلنے اور باہر سے ہدایات دینے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ بات ان کو اہستہ آہستہ سمجھ آ جائے گی۔

خان صاحب کی ابتدائی غلطی ان کا اپنی ٹیم کا غلط انتخاب تھا۔ یہ انتخاب آپ نے خود کیا یا آپ سے کروایا گیا۔ کچھ کھلاڑی ایسے تھے جن کی شہرت اچھی نہ تھی۔ کچھ اناڑی تھے اور کچھ ایسے جو ہمیشہ صرف اپنے لئے کھیلتے ہیں۔ آپ کی مخالف ٹیموں کے منجھے ہوئے کھلاڑی مل کر ایک ٹیم بنانے لگے تھے جو ٹورنامنٹ تو شاید نہ جیت سکتی البتہ کئی میچوں میں آپ کو شکست سے دوچار ضرور کردیتی۔ وہ تو بھلا ہو ایک نہیں دونوں امپائر آپ سے ملے ہوئے تھے۔ مخالف ٹیم کے سنٹر فارورڈ کو ریڈ کارڈ دکھا کر مخالف ٹیم سے ہی الگ کر دیا۔ یوں آپ کو تقریباً واک اور مل گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ آپ کو اپنی ٹیم کا کھیل مایوس کر رہا ہے۔ اگر آپ کو مایوس نہیں بھی کر رہا تو تماشائی کافی مایوس نظر آتے ہیں۔ بلکہ وہ تماشائی جنھوں نے آپ کی وجہ سے میچ کے ٹکٹ خریدے تھے وہ زیادہ مایوس ہیں۔

میچ شروع ہوتے ہی ایک تماشائی جس نے میچ کا ٹکٹ بہی نہیں خریدا یعنی خاور مانیکا گراونڈ میں گھس آیا۔ یہ حرکت پتہ نہیں آپ کو پسند آی یانہیں کھیل دیکھنے والوں کو بلکل پسند نہیں آئی۔ تماشائی آوازے کستے رہے کسی نے پرواہ نہ کی۔ اس کی ہمت بڑھی اور وہ آپ کے کھلاڑی بزدار کا آٹو گراف لینے گراونڈ کے اندر گھس آیا۔ اب کی بار نہ صرف تماشائیوں نے پتھراؤ شروع کر دیا بلکہ میچ کے منتظمین نے بھی بھر پور احتجاج کیا۔ حالات کو مد نظر رکھتے ہوے امپائر کو مداخلت کرنا پڑی جہاں آپ کے خاص کھلاڑی بزدار کو ریڈ کارڈ دکھانے کی دھمکی دی گئی۔ یوں امپائر ایک بار پھر آپ کے کام آیا اور آپ کی عزت بچ گئی۔

پچھلے ٹورنامنٹ میں جو کہ آپ ہار گئے تھے امپائر کی مدد سے نتائج بدلنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ ناکامی پر آپ نے مخالف کپتان نواز شریف کو قادیانیوں کا ساتھی قرار دلوا کر ٹیم سے آوٹ کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ آپ نے موقف اپنایا کہ مسلمان ملک میں مسلمان ٹورنامنٹ ہو گا کوئی قادیانی کھلاڑی یہ ٹورنامنٹ نہیں کھیل سکتا۔ نہ ہی کوی کھلاڑی کسی غیر مسلم کی حمایت کر سکتا ہے۔ اب آپ نے خود ایک قادیانی کو ٹیم میں شامل کر لیا۔ تماشائی تو شور مچائیں گے۔ مخالف تو نعرے لگائں گے۔ آپ نے مخالف نعروں کی وجہ سے اپنی ٹیم کمزور کر لی۔ آج تو امپائر آپ کی مدد کر رہے ہیں۔ کل امپائر بدل گئے تو آپ کو مشکل ہو گی۔

خان صاحب حکومت کرکٹ میچ کی طرح نہیں جہاں آپ نے اندھادھند باولنگ کرکے مخالف ٹیم کے کپتان کو آوٹ کر دیا۔ یہ ہاکی کا کھیل ہے جہاں گیند زیادہ تر اپنے پاس یا اپنی ٹیم کے پاس رکھنی ہوتی ہے۔ یہاں اپنے کھلاڑی کو پاس دینا پڑتا ہے۔ اپنے کھلاڑی سے پاس لینا پڑتا ہے اور اپنا کھلاڑی پاس نہ ہو تو ڈربلنگ کرتے کرتے گول کرنا پڑتا ہے۔ مخالف ٹیم کی ڈی میں جا کر ان کے کھلاڑی سے فاول کروانا پڑتا ہے پھر آپ کو پنلٹی سٹروک ملتا ہے یا پنلٹی کارنر۔ یہاں آپ کا فل بیک مضبوط اور سنٹر فارورڈ تیز رکھنا پڑتا ہے۔ گول نہ بھی ہو رہا ہو تو بھی مخالف کے ہاف میں کھیلنا ہوتا ہے تاکہ مخالف ٹیم دباؤ میں رکھی جا سکے۔ آپ نے پنجاب میں بھی ایسا کھلاڑی رکھا ہے جو پہلی بار اتنا بڑا میچ کھیل رہا ہے۔ آپ کو خود اس کی پوزیشن پر آ کر کھیلنا پڑتا ہے۔ کے پی کے میں بھی یہی حال ہے۔ آپ کس کس پوزیشن پر جا کر خود کھیلو گے۔

اب آپ نے ڈیم ڈیم کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ٹھیک ہے ٹورنامنٹ پرکشش کریں۔ تماشائی اس سے خوش ہوتے ہیں۔ سٹیڈیم اچھا بنائں مگر اس کا بوجھ تماشائیوں پر نہ ڈالیں۔ چندہ نہ مانگیں۔ اس سے ٹورنامنٹ اور انتظامیہ کی شہرت خراب ہوتی ہے۔ ایسے ٹورنامنٹ کو اچھے سپانسر نہیں ملتے۔ پاکستان میں ہاکی کا کھیل جمہورئیت کی طرح پروان اس لئے نہیں چڑھ سکا کہ اس کو اچھے سپانسر نہیں مل سکے۔ ویسے جو غیرملکی سپانسر آئے تھے آپ نے ان کو ٹورنامنٹ سپانسر کرنے کے لئے حکمت عملی سے کام نہیں لیا۔ کچھ وہ پہلے ہی ناراض تھے کچھ آپ نے مہمان نوازی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

جناب وزیراعظم عمران خان صاحب مخالفین کی باتوں اور ٹورنامنٹ کے ٹھیکے سے پہلےکی باتوں کو بھول کر اچھے اچھے سپانسر تلاش کریں۔ آپ کو اچھی طرح علم ہے کوئی بھی میچ اچھا دلچسپ اور تماشاؤں کی توجہ تب حاصل کرتا ہے جب اس کو اچھا سپانسر مل جاتا ہے۔ اس طرح آپ کو ٹورنامنٹ سے اتنی کمائی ہوگی کو سارے خرچے نکال کر بھی آپ کو پیسے بچ جائں گے۔ یہ کمائی آپ پرانے سٹیڈیم کی مرمت پر بھی لگا سکتے ہیں۔ اور زیادہ کمائی کی صورت میں نئا سٹیڈیم بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ صرف احتیاط کرنی ہوگی کہ سابقہ ٹھیکہ داروں کی طرح کھلاڑیوں کو کمائی کی بندر بانٹ سے روکنا ہوگا۔

اور ہاں اپنے بیرونی دشمنوں خاص طور پر مودی کا خیال رکھنا ہو گا۔ وہ بہت چالاک اور عیار ہے۔ آپ کے مخالف کھاڑیوں کی ان سے دوستی ہے۔ وہ میچ جیتنے کے لئے پورا ٹورنامنٹ ہی خراب کرا سکتے ہیں۔ اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).