اعتراز احسن کا جرمانے کی رقم بھاشا ڈیم فنڈ میں دینے سے انکار


پاکستان

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے سرکاری اداروں کے مقدمات میں مبینہ طور پر بھاری فیس لینے کے مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے عائد کیے جانے والے جرمانے کی رقم کو بھاشا ڈیم فنڈ میں جمع کروانے سے معذوری ظاہر کی ہے۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس طرح کا اقدام اعتراف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران دوران ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے وکیل اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ ایسے معاملے میں ڈیم فنڈ کو نہ لے کر آئیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’جرمانہ بھاشا ڈیم فنڈ میں نہیں ایدھی فاؤنڈیشن کو دیں‘

’تربیلا ڈیم: پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں 40 فیصد کمی‘

کیا چندہ جمع کر کے ڈیم بن سکتا ہے؟

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو سرکاری اداروں کی جانب سے نجی وکیلوں کو دی جانے والی بھاری رقوم سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہویے کہا کہ سرکاری اداروں کے نجی وکلا کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر سرکاری اداروں نے نجی وکلا کی خدمات کی حاصل کرنی ہیں تو پھر سرکاری وکیل کس لیے ہیں اور انھیں ماہانہ وظیفہ کیوں دیا جا رہا ہے؟

اعتزاز احسن نے کہا کہ نجی وکلا کی خدمات نہ لینے سے متعلق ابھی تک کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک سرکلر جاری ہوا تھا جس کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ وکلا اس ضمن میں سرکاری اداروں سے لی گئی فیس کا کتنے فیصد حصہ ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں گے جس پر اعتزاز احسن نے انکار کرتے ہویے کہا کہ وہ اس طرح ڈیم فنڈ میں رقم جمع نہیں کروائیں گے۔

بینچ کے سربراہ نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ سپریم کورٹ نے انھیں ایک مقدمے میں پیش نہ ہونے پر دس ہزار روپے جرمانہ کرکے اس کی رقم بھاشا ڈیم میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا لیکن انھوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا اور چیف جسٹس کے بقول جرمانے کی رقم ان(چیف جسٹس) کے بیٹے نے جمع کروائی تھی۔

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ فیس یا جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں دینے کا مطلب اعتراف جرم ہو گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ وکلا کو جو فیس دی گئی ہے وہ خلاف قانون تو نہیں ہے۔

ای او بی آئی کے ایک اور وکیل بابر ستار نے کہا کہ وہ اس ادارے کے 42 مقدمات میں عدالت میں پیش ہوئے اور انھیں فیس کی ادائیگی پیپرا رولز کے تحت کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ ہر بار اس مقدمے میں وکلا کو بدنام کیا جاتا ہے جس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الزام یہ ہے کہ مخصوص وکلا کی خدمات حاصل کی گئیں۔

بابر ستار کا کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے نجی وکلا کی خدمات حاصل نہ کرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ان وکلا کو فیسوں کی ادائیگی کے بعد آیا۔

جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ کئی وکلا کو قابلیت نہ ہونے کے باوجود نوازا گیا۔

بینچ کے سربراہ نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جن وکلا کے ساتھ رات کو پارٹی چلتی ہے صبح ان کی خدمات حاصل کر لی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس مقدمے میں بہت کم فیس لی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی کے سابق چیئر مین ظفر گوندل نے ایک روپے مالیت والی زمین کو 1200 روپے میں خریدا۔ اُنھوں نے کہا کہ اچھے وکیل کو ان کیس لینا ہی نہیں چاہیے تھا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت اس معاملے کو دیکھے گی کہ رقم کی ریکوری وکلا سے کرنی ہے یا پھر ان افراد سے جنھوں نے اس کی ادائیگی کی۔

سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کے متعلقہ حکام سے وکلا کو دی جانے والی فیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔

عدالت نے وزارت قانون کو بھی سرکاری محکموں کے مقدمات کی پیروی کے لیے نجی وکلا کی خدمات حاصل کرنے پر پابندی کے بارے میں 17 اکتوبر کو جواب جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی ایک مقدمے کا التوا مانگنے پر ایک فریق کو بینچ کے سربراہ جسٹس گلزار کی جانب سے 50 ہزار روپے جرمانے کی رقم بھاشا ڈیم میں جمع کروانے کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ایدھی فاؤنڈیشن میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp