ملک نیمروز میں ملا حکومت کرتے ہیں


بھوک، غربت اور جہالت کے شکار ملک نیمروز کے باشندوں نے فیصلہ کیا کہ ملک کی حکومت سیاسی علما کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ سارے قوانین خوب چھان پھٹک کر بنا لیں اور ملک سے خرابی دور ہو اور لوگوں کو کھانے پہننے کو ملے۔ حکمران کونسل کا پہلا اجلاس ہوتا ہے تاکہ ملک کے لیے سب سے زیادہ اہم امور پر سب سے پہلے قانون سازی کی جائے۔

ملا امام العصر کونسل کی کارروائی شروع کرتے ہیں اور باقی مولانا حضرات سے قانون سازی کے لیے تجاویز طلب کرتے ہیں۔

کونسل کے ایک ممبر اپنے سامنے موجود حلوے کی پلیٹ سے توجہ ہٹاتے ہیں تو کہتے ہیں ’جو حلوے کے خلاف لفظ بولے اسے مار دو۔ جو مسلمان حلوے کے خلاف بولے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی مسلمان کو یہ چیز پتہ لگے کہ فلاں چیز رسول پاکؐ کو پسند ہے اور پھر بھی کہے کہ مجھے ناپسند ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے‘۔

سب تائید میں سر ہلاتے ہیں۔ ایک دوسرے ممبر کو جوش آتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’جو کدو کی بے حرمتی کرے، اسے ستر اور دس اسی کوڑے مارنے کی سزا کا قانون بنایا جائے۔ اس کی نظیر موجود ہے۔ نظام الملک وزیراعظم کا بیٹا کدو کو ہاتھ میں لٹکا کر لہراتا ہوا جا رہا تھا کہ قاضی نے پکڑ لیا۔ قاضی نے کہا کہ ابو یوسف کا فتوی ہے کہ کدو کی بے حرمتی کرنے والے کو اسی کوڑے مارو۔ یہ کدو کو کس بے شرمی سے لہراتا ہوا چل رہا ہے‘۔

پہلا ممبر بات کو آگے بڑھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’دیگر پھلوں اور سبزیوں پر کنٹرول بھی ضروری ہے۔ ٹماٹر پر مکمل پابندی لگائی جائے کہ اسے کاٹا جائے تو اندر صلیب بنی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ نصرانی پھل ہے۔ نیز باعصمت مستورات کو باعصمت رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں لمبوتری شکل کی سبزی اور پھل کو ہاتھ لگانے سے روکا جائے۔ ان کو صرف کاٹ کر ہی ان کے سپرد کیا جائے‘۔

دوسرا ممبر بولا ’لیکن حضرت آپ نے غور نہیں کیا۔ اگر کاٹ بھی دیا تو ان کی تاثیر تو وہی رہے گی۔ ان خواتین میں مردانگی کا جوہر پیدا ہو جائے گا جو کہ مناسب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں تو وہ اپنے شوہر پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے پر مائل ہو سکتی ہیں۔ ایسی ایک بیوی ہی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کسی کی ایسی چار ہوں تو وہ غریب تو زندہ نہیں رہے گا۔ سنا ہے کہ ہوٹلوں میں کوئی بوفے وغیرہ نامی رواج بھی ہے جہاں ایک جگہ سارے کھانے رکھے ہوتے ہیں اور جو جتنا جی چاہے کھائے۔ یہ حرام ہے کیونکہ ہر کھانے پر الگ سے قیمت نہیں لکھی ہوتی ہے۔ اس پر مکمل پابندی عائد کی جائے‘۔ سب اراکین تائید میں سرہلاتے ہیں اور اشیائے خورد و نوش کا قانون بن جاتا ہے۔

ایک ممبر بولے ’حکومت کو سائنسی نصاب میں سے گمراہی کا عنصر نکالنا چاہیے۔ کفار نے کیا مشہور کیا ہوا ہے کہ دنیا گول ہے اور سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ یہ خلا سے لی گئی تصاویر فوٹو شاپڈ ہیں جو کفار نے ہمیں گمراہ کرنے کے لیے بنائی ہوئی ہیں۔سنا ہے کہ کسی گلی گھومو نامی کوئی اطالوی پھیری لگانے والا ہے جس نے یہ گمراہی پھیلائی ہے۔ اسے پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ طلبا کو واضح طور پر بتا دیا جانا چاہیے کہ زمین چپٹی ہے۔ یہ کفار تو سنا ہے کہ مریخ وغیرہ پر بھی جا رہے ہیں۔ ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔ اس پر بھی پابندی لگائی جائے‘۔ قانون لکھ لیا گیا۔

ایک اور نے کہا ’درست فرمایا۔ یہ کفار ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔ کل ہی میں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ کوئی کارٹون نامی گمراہی چل رہی تھی جس میں ایک مکی ماؤس نامی بدکردار چوہا بچوں کو بہکا رہا تھا۔ سنا ہے کوئی جیری نامی ساتھی بھی ہے اس کا۔ تمام گھریلو اور کارٹونی چوہوں کو دیکھتے ہی مار دیا جانا چاہیے۔ یہ شیطان کے سپاہی ہیں‘۔

دور کونے سے آواز بلند ہوئی ’اجی یہ کفار تو قوم کو قعر معزلت میں دھکیل رہے ہیں۔ سنا ہے کہ کمپیوٹر پر بھی تصویریں بنا دی ہیں اور انہیں سمائلی کہتے ہیں۔ ان سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ لکھنے والا مسکرا رہا ہے یا غصے میں ہے یا شرما رہا ہے وغیرہ۔ خاص طور پر مستورات کا نامحرم افراد سے بات چیت کرتے ہوئے ایسے سمائلی استعمال کرنا تو بہت غلط ہے۔ اس طرح نامحرموں کو پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے جذبات کیا ہیں۔ ویسے بھی مستورات کو صرف پبلک چیٹ روم میں ہی نامحرموں سے بات کرنی چاہیے‘۔

کونسل کے نوجوان ترین رکن بولے ’خواتین کے رومانی ناول پڑھنے پر بھی پابندی لگائی جائے۔ یہ ان کو تخیلات کی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں ہر ہیرو وجیہہ و شکیل ہوتا ہے۔ وہ گمراہ ہو جاتی ہیں اور پھر نیک سیرت نوجوانوں کو گھاس نہیں ڈالتی ہیں۔ ہاں علما کو اجازت ہونی چاہیے کہ دور جدید کے گمراہ کن رجحانات سے آگاہ ہونے کے لیے ایسے ناول پڑھ لیا کریں‘۔ تائید میں کئی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور خواتین کے لکھنے بولنے پر مناسب قانون بن جاتا ہے۔

ایک رکن نے کہا کہ ’مردوں کے نیکر پہن کر فٹ بال کھیلنے پر پابندی لگائی جائے۔ عورتیں کھیل کے نام پر ان ننگی ٹانگوں کو دیکھ کر بہکتی ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ کون جیت یا ہار رہا ہے یا فٹ بال کہاں جا رہی ہے۔ وہ تو بس برہنہ مردانہ ٹانگیں دیکھتی ہیں‘۔

تائید میں ایک آواز بلند ہوئی۔ ’واقعی یہی بات ہے۔ سٹیڈم میں یا کہیں اور ان عورتوں کا کرسی پر بیٹھنا بھی غلط ہے۔ اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ ایسا کرنے سے جنات ان پر عاشق ہو کر ان سے جسمانی تعلق قائم کر لیتے ہیں‘۔ قانون کے لیے نوٹ بنا دیا گیا۔

نوجوان رکن دوبارہ بولے ’قانون میں نوجوانوں کو اجازت ہونی چاہیے کہ شادی کے لیے لڑکی پسند کرنے کا ارادہ ہو تو وہ چھپ کر اسے نہاتے ہوئے برہنہ حالت میں دیکھ سکتے ہیں، بشرطیکہ بعد میں وہ اسی سے شادی کریں۔ اس مقصد کے لیے تمام زنانہ غسل خانوں میں روزن بنائے جائیں۔ ہاں اگر کسی وجہ سے وہ لڑکی دیکھ کر ناپسند ہو جائے تو پھر رخصتی سے پہلے طلاق دی جا سکتی ہے‘۔ کئی افراد نے اثباتی انداز میں سر ہلائے۔

ایک جہاندیدہ بزرگ بولے ’لیکن اسے کھلی چھوٹ نہ سمجھ لیا جائے۔ شوہر کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو برہنہ حالت میں دیکھے۔ ایسا کرنے سے نکاح فاسق ہو جاتا ہے‘۔ ترمیم نوٹ کر لی گئی۔

ایک جوشیلے رکن بولے ’عورتیں بگڑ چکی ہیں۔ وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ایک ہی دفتر میں کام کرتی ہیں۔ یہ غلط کام ہے۔ اسے درست کیا جانا چاہیے۔ اس کا حل واضح ہے۔ ان مردوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم پانچ مرتبہ ان خواتین سے رضاعت کا رشتہ قائم کریں تاکہ حرمت قائم ہو اور مردوں اور عورتوں کے دلوں میں جنس کا خیال نہ آئے‘۔ سب متفق ہو گئے اور قانون لکھ دیا گیا۔

ایک اور حضرت نے کہا کہ ’شوہر کے بیوی پر بہت حقوق ہوتے ہیں، اسے ان حقوق کو ادا کرتے ہوئے اف تک نہیں کرنی چاہیے۔ حتی کہ اگر شوہر بھوک سے بے حال ہو رہا ہو تو وہ اپنی بیوی کا گوشت کاٹ کر کھا سکتا ہے تاکہ اپنی جان بچا سکے۔ بیوی کو ہنسی خوشی یہ خدمت انجام بجا لانی چاہیے‘۔

ایک دوسرے رکن نے تائید کی ’اور ایک شوہر اپنی مردہ بیوی کے ساتھ جنسی تعلق بھی قائم کر سکتا ہے۔ اس کی اجازت ہے۔ لیکن شادی پر بات چل رہی ہے تو پیدا ہونے والے بچوں کا بھی سوچا جائے اور پولیو کے قطروں پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ شادی کا مقصد صرف اور صرف بچے پیدا کرنا ہوتا ہے اور پولیو کے قطرے اس مردانہ صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں‘۔ پولیو کی ویکسین پر پابندی کا بل منظور ہو جاتا ہے۔

کونسل کے سربراہ نے اعلان کیا ’شکر ہے کہ آج ہم نے قوم کے لیے وہ ساری قانون سازی کر دی ہے جو کہ وہ اس کو گمراہی کے غار میں گرنے سے بچا لے گی۔ باقی امور کی اہمیت نہیں ہے۔ اجلاس ختم کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ تمام اراکین سختی سے آج طے ہونے والے امور کی نگرانی کریں گے‘۔

نوٹ: یہ سارے فتوی جات گزشتہ ماہ و سال میں خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ خدانخواست اگر ہماری کسی حکمران کونسل میں ایسے لوگ اکٹھے ہو گئے جو کہ عصر حاضر کے حالات اور علوم سے نابلد ہوئے تو کیا ہمارا حال بھی ملک نیمروز جیسا ہی ہو گا؟ یا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہو جو کہ یہود و ہنود کے ملکیتی دجالی میڈیا نے خود سے بنا کر لکھ دیا ہو۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم تک تو جو بات پہنچی وہ آپ کو بتا دی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments