جب پاکستانی سفیر نے امریکی وزیر خارجہ کی خوب توہین کی لیکن۔۔۔۔


سفیر اپنے ملک کے مفادات کے حوالے سے ایک سے اہم رول ادا کرتا ہے۔ آج کی دنیا جب مواصلات میں ایک طرح سے انقلاب آیا ہوا ہے اور ڈپلومیسی بھی ہوا کے دوش پر سوار ہو گئی ہے اب بھی سفیر اپنے ملک کے مفادات اور صورت نمائی میں بہت بڑا وسیلہ اور ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ مگر بہت سے نو آزاد ممالک میں جہاں انداز حکمرانی آمرانہ ہے سفیروں کے انتخاب میں قومی نہیں ذاتی ترجیحات کام کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دنیا میں ان ممالک کے مفادات کو نقصان بھی پہنچا ہے اور وہ بے وقار بھی ہوتے ہیں۔ ایسے نامزد سفیروں سے وقتاً احمقانہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں جن سے ملک کو خفت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ نا اہل سفیر کس حد تک ملکی مفادات کے لئے ضرر رساں بن جاتے ہیں اس کی مثال ایک سفیر صاحب کی کارکردگی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

بیرون ملک معاہدہ سیٹو ( ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن ) کے ایک اجلاس میں بھی شریک تھا۔ ہمارے سفیر صاحب نے امریکہ کے وزیر خارجہ ڈین رسک صاحب کو دوپہر کے کھانے پر بلایا، مجھے بھی دعوت دی کوئی درجن بھر مہمان تھے ان میں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے امور سے متعلق امریکہ کے نائب وزیر خارجہ بھی تھے۔

امریکی وزیر خارجہ ڈین رسک پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کرتے ہوئے

امریکی وزیر ہمارے سفیر کے پہلو میں بیٹھے تھے اور نائب وزیر اور میں ان کے سامنے۔ کچھ اور پاکستان مہمان بھی تھے۔ سفیر صاحب کھانے کے دوران اپنے پاکستانی مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے ڈین رسک کے بارے میں اردو میں بلاوجہ غیر مہذب فقرے چست کرتے رہے۔ یہ کام وہ اس وقت کرتے جب ڈین رسک کسی اور سے گفتگو کر رہے ہوتے۔

کھانا ختم ہوا، کافی آگئی اس کے بعد ڈین رسک اور ان کے ساتھی جانے کے لئے تیار ہو گئے کہ اچانک امریکی نائب وزیر ہمارے سفیر اور ان کے ساتھ کھڑے دوسرے مہمانوں سے مخاطب ہوئے۔ ” جنٹلمین، جانے سے پہلے آپ کو ایک قصہ سناتا چلوں، جنگ کے دونوں میں بے شمار امریکی ہندوستان آئے تھے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو وہ واپس امریکہ چلے گئے۔ یہ اتوار کی صبح کی بات ہے کہ ہندوستان میں کچھ عرصہ گزار کر امریکہ کے ایک دور دراز قصبے میں رہنے والے دو امریکی سپاہی ایک دکان کے پاس گھڑ ے تھے۔ یہ دونوں ہندوستانی جانتے تھے، انہوں نے دوکان کے شیشے میں دیکھا کہ ایک تیسرا آدمی پاس سے گزر رہا ہے اس کی ناک بہت ہی لمبی تھی۔

ایک سپاہی نے لمبی ناک پر تبصرہ کرتے ہوئے دوسرے جی آئی سے ہندوستانی میں کہا۔ ’دیکھو اس کی ناک کتنا لمبی ہے‘۔ نائب وزیر نے کہا۔ آپ یقین کریں کہ اس تیسرے امریکی نے یہ تبصرہ سن کر ترت جواب ( ہندوستانی میں ) دیا۔ ’اتنا ہی ہو سکتا ہے جتنا خدا نے بنایا ہو۔ میرا کیا قصور ہے‘ قصہ سنانے کے بعد نائب وزیر نے کہا۔ کہانی کا سبق یہ ہے کہ آپ کو کسی عجیب و غریب جگہ پر ایسے آدمی مل جاتے ہیں جو آپ کی زبان جانتے ہوں۔ اور جناب سفیر، کھانے کا بہت شکریہ!

ہمارے سفیر صاحب تو اس اچانک وار پر گھبر ا کر گرنے والے تھے۔ بعد میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ امریکی نائب وزیر نے کچھ عرصہ علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی گزارا تھا، فارسی کا اسکالر تھا اردو بڑی روانی سے بولتا تھا۔ جنگ کے دونوں میں ڈین رسک بھی ہندوستان میں رہے تھے اور غالباً انہیں بھی گزارے کی اردو آتی تھی۔

(درج بالا واقعہ ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب “باتیں حاکم لوگوں کی” میں بیان کیا ہے۔ پڑھنے والوں کو تجسس ہو سکتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث پاکستانی سفیر کون تھے۔ ڈین رسک (Dean Rusk) جنوری 1961 سے جنوری 1969 تک امریکا کے وزیر خارجہ رہے۔ ایر مارشل اصغر خان جولائی 1957 سے جولائی 1965 تک پاکستان کی ایئر فورس کے سربراہ تھے۔ گویا وزیر خارجہ ڈین رسک اور ایر مارشل اصغر خان کی سیٹو کانفرنس میں بیک وقت موجودگی جنوری 1961 سے جولائی 1965 تک کے چار برس میں ہی ممکن تھی۔ اس عرصے میں دو افراد امریکا میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعینات رہے۔ عزیز احمد مارچ 1959 سے جولائی 1963 تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر رہے جب کہ  جولائی 63 سے 1966 تک امریکا میں پاکستانی سفیر کا نام غلام احمد تھا۔ اس عرصے میں سیٹیو کانفرنس کا وزارتی اجلاس مئی 1965 کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوا۔ اس واقعے میں جس سفیر کا ذکر کیا گیا ہے، ممکنہ طور پر ان کا نام غلام احمد تھا۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).