اقتدار کی شیروانی پہنے اختیار کی چھڑی سے محروم وزیراعظم


موجودہ سیاسی منظرنامے کا ماضی کے حالات سے موازنہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بالخصوص عمران خان وہی غلطیاں کر رہے ہیں جو آپ سے پہلے قائدین کرتے آئے ہیں۔ انتقام اور الزام کی سیاست اور سیاستدانوں کو گندا ثابت کرنے سے پاکستان کا بھلا نہیں کیا جا سکتا، الٹا جمہوری ادارے کمزور اور غیر جمہوری قوتیں طاقتور ہوتی ہیں۔ پاکستان اس وقت ان حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا، بلوچستان کا احساس محرومی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، کوئی بین الاقوامی وفد پاکستان آنے کو تیار نہیں، سرمایہ کاری کا بھی کوئی امکان نہیں۔

اقتدار کی شیروانی تو زیب تن کر لی مگر کیا اختیارات کی چھڑی بھی مل پائے گی؟
شہید ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے انجام سے کسی سیاسی جماعت نے سبق حاصل کرنے کی کوشیش نہیں کی کہ حکومت میں ہوتے ہوے بھی سیاسی تنہائی کا شکار رہے۔ مشکل وقت میں اپنی ہی غلطیاں آڑے آئیں اور جمہوریت کی بساط مٹھائی کے ڈبے بند کر دی گئی۔

عمرانیاتی طرز سیاست سے اس نظریہ کو اور تقویت ملی ہے کہ پاکستان میں خالص جمہوری اصولوں پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ حالات بدتر ہوتے جا رہےہیں پاکستان ایک بار پھر سرد جنگ کا حصہ بن چکا ہے مگر اب کی بار ہم گیم چینج کرتے ہوے چین کا ساتھ دے رہے ہیں۔

کپتان صاحب آپ کو شاید علم نہیں آپ کے پیش رو وزراء اعظم بھی ان ہی اداروں سے فارغ التحصیل تھے جن سے آپ نے ڈگری حاصل کی ہے مگر ان کے ساتھ جو ہوا وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔
آپ بھی اُسی منزل کے نا صرف مسافر ہیں بلکہ آپ کی طرف سے انتقام اور الزام کی سیاست میں شدت آئی ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کے جذباتی نعروں سے اقتدار تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ غیر مناسب حکومتی رویوں کی بدولت اپوزیشن چپ سادھے حالات کی سنگینی کا جائزہ لے رہی ہے۔ ان کو اتنا بد ظن نہ کریں کہ مستقبل قریب وہ بھی مٹھائی کا ڈبہ لیے کسی چوک میں کھڑے خوشی منا رہے ہوں۔

یہ وہی سیاسی خاموشی ہے جس کا مزا نوازشریف بھاری مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے چکھ چکے ہیں۔ جمہوری ادارے جمہوری روایات کے فروغ سے مظبوط ہوتے ہیں اور جمہوری روایات کا تقاضہ ہے کہ سیاستدانوں کی کردار کشی سے اجتناب کیا جائے۔ آپ بھول رہے ہیں کہ آپ کے سر پر بھی وہی تلوار لٹک رہی ہے جو آپ سے پہلے آنے والوں پہ چل چکی ہے۔

سی پیک اور میاں عاطف کے کیس میں یہ تو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ آپ کس قدر کمزور ہیں۔ یہ بھی احساس ہو گیا ہو گا کہ ارض پاک کی سالمیت اور اسلام کیسے اچانک سے خطرے میں آ جاتے ہیں۔ سیاسی مخالفین سے بنا کے رکھنے میں ہی آپ کی بقا ہے۔ آپ تبدیلی کے نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور سیاسی اپوزیشن کو ساتھ ملائے بغیر یہ ممکن نہیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو یقین جانیں اور تو کچھ بدلے یا نہ بدلے آپ کو لے کر آنے والے ہی آپ کو تبدیل کر دیں گے۔ پاکستان کی سابقہ سیاسی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ایسا ضرور ہو گا۔

اپوزیشن پینچوں پر اپنے قبضے کو چھوڑ دیں اور ہر معاشی، معاشرتی اور خارجہ پالیسی پر پارلیمانی بحث کا آغاز کریں۔ پالیمان کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے کیے گئے ہر فیصلے پر آپ کو ایسے ہی یو ٹرن لینا پڑھیں جن کی تعداد صرف ایک ماہ میں پندرہ تک پہنچ چکی ہے۔ اور آپ کے یہی یو ٹرن لندن سے واشنگٹن اور بیجنگ سے دلی تک پاکستان کےلئے جگ ہنسائی کی وجہ بن رہے ہیں۔ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اگر ہو تو اسے استعمال کریں تاکہ کوئی اسلام آباد یاترا پہ آیا بیرونی مہمان یا سفیر اسلام آباد میں رہتے ہوے راولپنڈی کے چکر نہ لگائے۔

پاکستان کے مسائل یہ نہیں ہیں کہ ہم بھینسوں کی نیلامی یا شیرو کابینہ میٹنگ اٹینڈ کریں گے یا نہیں، چارٹر طیاروں کا سفر جائز ہے کہ ناجائز، جیسے نان ایشوز پر بحث کرتے رہیں۔ ہمارے مسائل یہ ہیں کہ بلوچستان کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں۔ معاشی حالت ابتر ہے، سرمایہ دار پاکستان آنے کو تیار نہیں اور وہ آئے بھی کیسے اسے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ سودے بازی کس سے کرنی ہے۔ اور آپ ہیں کہ صرف نفرتیں بڑھانے میں مصروف، کنٹینر کی سیاست کو اب دفن کر دیں۔

سیاسی جماعتوں سے بد ظن ہونے کی بجائے انہیں ساتھ لے کر چلیں اور اس تبدیلی کا خواب پورا کریں جس کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ مگر، کیا آمریت کے پیٹ سے جنم لینے والا جمہوری بچہ اتنی ہمت کر سکتا ہے؟ کیا اقتدار کی شیروانی پہنے کپتان کے ہاتھ اختیار کی چھڑی آ سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).