ڈاکٹر انسان ہیں یا مشین؟


صبح گھر سے نکلے کسی کے ابو جب شام کو واپس آتے ہیں تو بعض اوقات ان کا موڈ خراب ہوتا ہے کیوں کہ صبح سے شام سو قسم کے کام، سو رویوں کا سامنہ کرنے کی طاقت، سو معاملات کو نبٹانے کی قوت جب غروبِ آفتاب کے ساتھ اختتام پہ پہنچتی ہے تو گھر پہ اولاد کو بھی نبھانا ہوتا ہے جو کہ ان کی ہے ذمے داری ہے آخرکار اللہ پاک نے باپ کا رتبہ دیا ہے تو یقیناً یہ ان کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی گھر آکر وقت دیں ان کے فرائض ادا کریں اور اولاد کی تربیت میں اپنا حصّہ ڈالیں۔ لیکن کبھی کبھار یوں بھی ہوجاتا ہے کہ ابو گھر آتے ہیں اور بچے ان کو دیکھ کر اچھل کود شروع کردیں یا گھر آتے ہی ابو سے فرمائش کر دیں تو روزانہ کی طرح شفقت کے بجائے پلٹ کر اک ڈانٹ کی آواز سننے کو ملتی ہے کہ اندھے ہو؟ نظر نہیں آتا ابھی تھک کر گھر پہنچا ہوں، نہ باہر سکون نہ گھر میں سکون، دفع ہوجاؤ یہاں سے، ان ڈانٹ و کلمات کو سننے کے بعد بچے اپنا سا منہ لے کر سائیڈ ہوجاتے ہیں اور امی آکر ایسے میں ان بچوں کو سمجھا رہی ہوتی ہیں کہ بیٹا ابھی آتے ہی ضد نہیں کرنی چاہیے تھی ناجانے کیا پریشانی رہی ہو آج کام میں، سارا دن کام کرکے انسان تھک جاتا ہے اور تم لوگوں نے آتے ہی فرمائش اور اچھل کود شروع کردی۔

جب یہ تمام معاملات میں دیکھ رہی ہوتی ہوں تو اک سوال ذہن میں آتا ہے کہ ابھی کسی نے میڈیا کو کال کرکے کیوں نہیں بلایا کہ دیکھو ایک باپ نے اپنی اولاد کو کتنی بری طرح جھڑک دیا، اس وقت یہ کوئی کیوں نہیں کہہ رہا ہوتا کہ یہ باپ کی ہی تو ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کی بات سنے اور ان کی فرمائش پوری کرے، اس وقت لوگ کیسے یہ بات سمجھ لیتے ہیں کہ صبح سے تھکا ہارا شخص جب شام میں بات کرتا ہے تو اس کے لہجے میں چڑچڑاہٹ آجاتی ہے۔

ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر بھی انسان ہوتے ہیں صبح سے شام مریضوں کا معائنہ، آپریشن، علاج، مریضوں کے لواحقین کو مریض کی حالت بتا اور سمجھا کر جب تھک جاتے ہیں تو ان کے لہجے میں بھی چڑچڑاہٹ آجاتی ہے صبح سے شام مریضوں کو وقت دیتے دیتے جب وہ اپنی بھوک اور پیاس کو سائیڈ پہ رکھ کر مریض کو فوقیت دے رہے ہوتے ہیں تو ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب وہ مریض کے رشتے داروں کے بےجا سوالات سے جھنجھلا اٹھتے ہیں اور اگر اس جھنجھلاہٹ اور اکتاہٹ میں وہ ذرا بھی تیز آواز کا استعمال کرلیں تو میڈیا پہ اک کہرام برپا ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر نے بدتمیزی کی اور اپنی ذمے داری ادا نہیں کی جب کہ ان کا پیشہ خدمت کرنے کا ہے۔

اس لمحے میں سوچنے لگتی ہوں کہ ڈاکٹر اور مریض سے قریب تر رشتہ تو باپ اور اولاد کا ہے، ان کی ذمے داری اور فرائض تو ڈاکٹر سے بھی بڑے ہیں باپ کی شان تو ڈاکٹر سے بھی زیادہ بڑی ہے ان کو تو کسی صورت اپنی اولاد کونہیں جھاڑنا چاہیے تھا لیکن ہم اس تھکن کو تھکن سمجھتے ہیں اس غصّے کو کام کے بوجھ کا نام دیتے ہیں، لیکن جب ڈاکٹر اس جھنجلاہٹ کا شکار ہوجائے تو ہم اس کیفیت کو انسانی کیفیت تسلیم نہیں کرتے، اس رویے کو تھکاوٹ اور بےآرامی کا نام نہیں دیتے اور اس کو میڈیا پہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ڈاکٹر پہ ہاتھ اٹھا کر اس کی تذلیل کرنا انسانی رویہ سمجھتے ہیں۔

سمجھا جائے تو ڈاکٹر کا رویہ کبھی بھی مریض پر خراب نہیں ہوتا وہ کبھی اپنے مریض سے تیز آواز میں بات نہیں کرتا، ڈاکٹر کبھی مریض کی خراب اور بدبودار حالات سے دور نہیں بھاگتا، اسی کی الٹی اور فضلات دیکھ کر مریض کو دور نہیں ہٹاتا، وہ کبھی غصے میں بھی مریض کے آپریشن سے انکار نہیں کرتا اور وہ کبھی جھنجلاہٹ میں مریض پہ ہاتھ نہیں اٹھاتا کیوں کہ یہ ہی اس کا پیشہ ہے لیکن اگر اس کے اکتاہٹ کی وجہ ہوتی ہے تو وہ صرف مریض کے رشتے داروں کی سوالات کی بے جا فہرست ہوتی ہے جو ڈاکٹر کو اکسانے میں مدد دیتی ہے۔

کیا کبھی کسی نے سنا کے مریض اور ڈاکٹر کی براہِ راست لڑائی ہوئی ہو جس میں ڈاکٹر نے مریض کو چیک کرنے سے انکار کر دیا ہو اور اسپتال سے نکال دیا ہو، یا غصّے میں مریض کا آپریشن روک دیا ہو، یا غصّے میں مریضہ کی ڈیلیوری کرنے سے انکار کردیا ہو یا نومولود بچے کو جان سے مار دیا ہو یا کسی مریض کو پولیس کے حوالے کروا دیا ہو۔ یاد رہے ڈاکٹر اس کیفیت میں بھی مریض سے اپنا رشتہ نبھاتے ہیں کسی بھی لڑائی کی بنیادی وجہ عموماً مریض کے لواحقین کا رویہ بنتی ہے جس سے ڈاکٹر اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ میں کچھ کہہ دے تو پوری دنیا کو دکھایا جاتا ہے جیسے یہ کوئی انسانی روپ و رویہ نہیں بلکہ حیوانی رویہ ہو۔

پھر اس کے بدلے میں ہم بیرونِ ملک کے ڈاکٹروں کی مثال دیتے ہیں جب کہ ہمیں حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے اس رویے کا ذمے دار بھی ہمارا معاشرہ ہے جہاں لوگوں کی تعداد کروڑوں کی میں ہے اور ڈاکٹروں کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں ہے ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے ایک ڈاکٹر پہ زیادہ مریض دیکھنے کا بوجھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے لہجوں میں بھی کبھی کڑواہٹ آجاتی ہے جب کہ باہر ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد کثیر ہے لہٰذا مریضوں کو چیک کرنے سے علاج کرنے تک کا وزن کم ہوتا ہے اور ڈاکٹر محدود مریضوں کو چیک اپ کرکے خوشگوار رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).