مرزا غالب کا خط شرجیل میمن کے نام


ارے میاں شرجیل! کس حال میں ہو کس خیال میں ہو، مانا کہ تم صاحبِ فراش ہو، جانے کیوں نراش (نا امید) ہو اور ایسی باتیں کر رہے ہو جو سیدھی دل کو چیر رہی ہیں۔
ہرکارۂ خاص دیر سے آیا ہے، لیکن ارضی خبریں لایا ہے۔ قسم لے لو دل پرجو ہاتھ پڑا ہے، وہیں کا وہیں دھرا ہے۔ خدا کا خوف کرو ”مشروبِ خاص ‘‘کی اتنی ناقدری اور بے توقیری کہ دخترِ عنب اور آتشِ سیال کو شہد اور زیتِ زیتون کا نام دے دیا۔

ارے کوئی مرزا تفتہ کو خبر کرے، میر مہدی کہاں ہے؟ کوئی میرزا علائی کو بلائے۔ کوئی تو میری ڈھارس بندھائے، کہاں بنت رز و صہبا کہاں شہد و زیتون، ہائے ہائے! افسوس صد افسوس!

ارے برخوردار! یہ شہرِ کراچی ہے، جس کی خوشبو مثلِ الائچی ہے۔ یہاں جو بھی ماجرا ہوتا ہے، سب سے جدا ہوتا ہے۔ بہرحال ہزار ہا کوس سے بزبانِ قلم باتیں کر رہا ہوں عالمِ بالا سے دلگیر گفتگو کر رہا ہوں۔

بھائی! ہم نے تو یہی سنا اور دیکھا ہے کہ زنداں میں داروغہ ہی متعین ہوتا ہے یاپھر کبھی کبھار کوتوال چکر لگا لیتا ہے مگرتم ٹھہرے ”خوش نصیب ‘‘کہ زنداں میں عام قاضی تو کیا منصفِ عالی مرتبت یعنی قاضی القضاۃ خود چل کر تمھارے احوالِ پرسش کو آئے اور تم رہے ناہنجار کے ناہنجار۔ انہیں کچھ لمحے ساتھ بٹھایا ہوتا کچھ حالِ دل ہی سنایا ہوتا، کچھ دعوتِ خورنوش دی ہوتی۔ کم از کم کوئی جام شربت کاہی پلایا ہوتا۔ سنا ہے وہ رنگ برنگی صراحیوں یعنی بلوریں بوتلوں کی بابت دریافت کر تے رہے اور تم صریحاً انکار کرتے رہے۔
بوتلوں کے انتخاب نے رسوا کیا تجھے

میاں تم نے کہا ہوتا کہ میں ٹھہرا مریضِ زنداں، کل شام ڈھلے کچھ یارِ طرح دار و زردار اس عارضی جیل میں ناچیز کا حال احوال پوچھنے آئے تھے، ساتھ کچھ تحفے تحائف لائے تھے، میں تو تھا دواؤں کی وجہ سے نیم مدہوش، مجھے کیا خبر، کیاہوش۔

میاں! تم ٹھہرے کوچہۂ زردار کے مکیں اور سنا ہے تم وزیربا تدبیر بھی رہے ہو جبکہ میں دلی کے علاقے ” بَلی ماروں‘‘ کا رہنے والا نِرا شاعر ادیب، ایک بار غدر کے دنوں میں کوچہ بَلّی ماروں میں ناگاہ آٹھ سات گورے دیوار پر چڑھ کے نیچے اتر آئے۔ سب کو گھیر لیا اور ساتھ لے چلے۔ راہ میں سارجن (سارجنٹ) بھی آملا۔ اس نے مجھ سے صاحب سلامت کے پوچھا کہ تم مسلمان ہو؟
میں نے کہا: ”آدھا مسلمان‘‘
اس نے کہا: ویل صاحب! ”آدھا مسلمان کیسا‘‘
میں نے کہا: ” شراب پیتا ہوں، ہیم (خنزیر) نہیں کھاتا۔ ‘‘

ارے میاں! تم بھی کچھ اسی قسم کی بات کر تے، تھوڑی سی ہمت دکھاتے اور اقرار کرلیتے تو تمھارا نام بھی تاریخ میں رقم ہو جاتا جیسے تمھارے جدِ سیاست ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ”پیتا ہوں پر تھوڑی سی پیتا ہوں‘‘ تم بھی کہہ دیتے ”کہ اس سے بھی تھوڑی پیتا ہوں ‘‘بس دوا سمجھ کر، طبیبِ درباری حکیم حاذق قبلہ عاصم حسین کے کہنے پر چند قطرے عرق انفعال کی بجائے دخترِ عنب کے انڈیل لیتا ہوں تو کونسی قیامت آ جاتی ہے، بطوردوا تو اجازت ہے! کیا کسی نے خوب کہا ہے
چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

برخوردار! یا پھر تم بھی اس حوصلے کا مظاہرہ کرتے جیسا کہ تمھارے سیاسی گرونے 2017 کے لاہور جلسے میں دکھایا تھا جس کا اہتمام مشہورِ عالم ” مولوی دھرن ‘‘نے کیاتھا جس میں تمھارے گرو نے سب کے سامنے چند گھونٹ بوتل سے پیے تھے۔ اس منظر کو نیگوڑے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر کے گھر گھر موجود سمعی و بصری صندوق (ٹی وی) پر دکھایا تھا۔

بھائی! تمھیں اگر اتنی شدت کی طلب اور پیاس ہے تو دیگر مشروبات سے دل بہلایا کرو، کبھی پنجاب کا مشروبِ خاص لسی پی کر دیکھو، قسم سے یہاں عالمِ بالا میں جتنے بھی پنجابی ہیں سبھی اسی کے رسیا ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس کے پینے سے وہ گھگھی چڑھتی ہے کہ شرابِ ناب کا مزہ بھی اس کے آگے ہیچ، کبھی لال شربت راحتِ جاں سمجھ کرنوش کیا کرو یا پھر عام آدمی کا مشروب ”نیبو پانی ‘‘پی کر دیکھواوراس میں سوڈا ملا کر پیوتو اس کا لطف دو آتشہ ہوتا ہے۔ سنا ہے حکمرانوں کے ہاں غریبوں کا لہو پینے کا نشہ سب سے مقدم ہے، سو تمھیں یہی مبارک ہو۔

میاں! شکر کرو کہ عالی مرتبت قاضی القضاۃ دن کے اجالے میں آئے اگر شب کے اندھیرے میں آئے ہوتے تو کمرۂ خاص سے وہ وہ اشیاء برآمد ہوتیں کہ اللہ کہ پناہ، حسینانِ دلربا اور نازنینانِ خوش ادا کی موجودگی کا کیا عذر تراشتے، انہیں کیا کہہ کر مطمئن کرتے اور ان پری زادیوں کے کیاکیا نام بتاتے کہ ان میں سے کون مہ جبیں ہے، کون مہ وش، کون مہ نور ہے اور کون مہ لقا، ہاں انہیں یہ کہہ سکتے کہ شہر کراچی میں رات کے وقت کچھ پریاں ٹھکانہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بندۂ ناچیز کی غم خواری کے واسطے اس درپر اُتر آتی ہیں۔ واللہ بوقتِ شب کچھ لمحے تیمار داری کروا کر جو تسکین، مسرت، فرحت اور راحت میسر ہوتی ہے دن بھر اس کا خمار رہتا ہے۔
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناںکیے ہوئے

مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پر مرتے ہیں اسی کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ٹھہرا، عمر بھر ایک ستم پیشہ ڈومنی کو بھی مار رکھا جبکہ تم ٹھہرے میمن بچے (مومن نہ پڑھ لینا)، تمھارے سیاسی حلقے میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایک حسینہ جو عشوہ و غمزہ میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی بہ اسم ایان، خوب چرچے ہیں مگر خدا لگتی کہوں کہ اس ستم پیشہ ڈومنی کی بات ہی اورتھی۔

یہاں تک لکھ چکا تھا کہ باہر باغ کے صدر دروازے پر حوروں کی نئی جماعت اپنے فرائض کی ادائیگی کی منتظر ہے، سو ان سے راہ و رسم بڑھاتا ہوں اور یہ کہ تم اور تمھارا سیاسی گرو عظمی، عالیہ اور نیبہ عدالت کے گھیرے سے بچ نکلتے ہو تو مکتوب ارسال کرتا ہوں۔
عافیت کا طالب، غالب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).