پنجاب کے بے ایمان وزرائے اعلی


سیفما کے دوستوں کی ایک منڈلی میں کلدیپ نیر صاحب گفت گوکے دوران کہنے لگے ” جنگ ایک انڈسٹری ہے، سرحد کے دونوں طرف نفرت کی آگ دہکتی ہے تو بہت سے گھروں کے چولہے جلتے ہیں، اگر ہندوستان پاکستان میں تعلقات بہتر ہو جائیں تو بہت سوں کی روزی روٹی چِھن جائے گی، سو نفرت کے سوداگر کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہم پیار سے رہیں‘‘۔ کلدیپ صاحب جیسے قد آور صحافی کے سامنے اپنی صحافیانہ نکتہ رسی کی داد پانے کے لئے میں نے تجویز پیش کی کہ ہمیں برصغیر میں امن کو انڈسٹری بنانے کی کوشش کرنا چاہیے، جس پہ کلدیپ صاحب مسکرائے، ذرا توقف کیا اور پھر کچھ کہنے ہی لگے کہ پیرِ فرتوت امتیاز عالم گفت گو میں وارِد ہوئے”کلدیپ صاحب ان رپورٹروں سے بچئے، یہ آپ سے ہیڈ لائن نکلوانا چاہتے ہیں‘‘، اس پہ دوستوں کا قہقہ بلند ہوا اور بات آئی گئی ہو گئی۔

عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی دونوں ملک باہمی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا ہے کہ تعلقات پہلے سے بھی زیادہ بگڑ جاتے ہیں، دوستی بس چلی تو کارگل کا ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا، پاکستانی وزیرِ خارجہ ہندوستان کے سرکاری دورے پہ تھے کہ ممبئی حملہ ہو گیا، اور اب تقریباً تین سال بعد پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات طے پا رہی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں تین پولیس والوں کے قتل کا واقعہ رُونما ہو گیا، اور ہندوستان نے اس واقعہ کا الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ کر دی۔ بلکہ ایک قدم اور آگے جا کر بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے پاکستان کو سرجیکل سٹرائک کی دھمکی بھی دے ڈالی، اور پھر ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بھارتی دھمکی کا ایسا دندان شکن اور منہ توڑ جواب دیا کہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی تاریخی حصہ ڈالا اورنریندر مودی کو ایسی کلّہ شکن ٹویٹ رسید کی جس کی مثال ہندوستان پاکستان کے غیر مثالی تعلقات بھی پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ خان صاحب نے ٹویٹ میں ہندوستان کے منفی اور متکبرانہ رویہ پہ افسوس کا اظہار کیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں نے عمر بھر بے بصیرت ’چھوٹے لوگوں‘ کو اعلیٰ عہدوں پہ تعینات دیکھا ہے۔ شہزاد احمد یاد آ گئے:
واسطہ مجھ کو خُدایا نہ پڑے لوگوں سے
چھوٹی باتوں کی توقع ہے بڑے لوگوں سے

چھوٹے لوگوں سے خان صاحب کی خُدا جانے کیا مُراد تھی، مگر بھارت میں اس کی تشریح یوں کی گئی کہ عمران خان کا اشارہ مودی کے ’چائے والا‘ ہونے کے پس منظرکی طرف ہے۔ اندیشہ یہ تھا کہ مودی جواب آں غزل کہ طور پہ ٹویٹ کریں گے، خان صاحب پہ کوئی رکیک ذاتی حملہ کریں گے کہ ٹویٹ کرنے میں زور ہی کتنا لگتا ہے، اور پھر ٹویٹ در ٹویٹ سفارتی جنگ ہو گی، مگر تا دمِ تحریر مودی صاحب نے اس ٹویٹ کا جواب نہیں دیا۔ لگتا ہے مودی صاحب سمجھ گئے ہیں کہ وہ خان صاحب سے ’زبانی جنگ‘ نہیں جیت سکتے۔

بہرحال، خان صاحب کی گرم گفتاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک مودی سرکار ہے، غالباً پاکستان بھارت مذاکرات کا ڈول دوبارہ نہ ڈالا جا سکے۔ خان حکومت نے جس تیزی سے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اُس سے زیادہ سُرعت سے وہ ہاتھ واپس کھینچ لیا گیا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ خان صاحب نے ذاتی طور پہ اس جھگڑے میں حصہ ڈالنا کیوں ضروری سمجھا؟ بھارتی آرمی چیف کی دھمکی کا جواب پاکستانی آرمی چیف نے نہیں دیا، کیا بھارتی وزارتِ خارجہ کی تلخ نوائی کا جواب ہماری وزارت خارجہ اُسی لہجے میں نہیں دے سکتی تھی؟

غالباً خان صاحب کی ذاتی ٹویٹ کا مقصد اس حقیقت کی تائیدِ مزید کرنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی حکومت اور پاکستان کی فوج دونوں صریحاً اور کلیتاً ایک پیج پہ ہیں۔ اس سارے قضیہ سے یہ سوال بھی جُڑا ہے کہ کیا امریکی صدر ٹرمپ کی طرح خان صاحب بھی اپنے اندرونی اور بیرونی دُشمنوں سے نمٹنے کے لئے ٹویٹر کا وافر استعمال کریں گے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے @imranKhanPTI ٹویٹر ہینڈل پہ نظر رکھیے۔

چھوٹے لوگوں کا تذکرہ بہت وقت کھا گیا، حالاں کہ آج ایک بڑے آدمی پہ کالم لکھنے کا ارادہ تھا، جس کا وجودِ مسعود اہلِ پنجاب کے لئے عطیہِ خداوندی سے کم نہیں، ایک ایسا سائبان جس کی چھاؤں ہمیں زمانے کے سردوگرم سے بیس اگست 2018 سے بچائے ہوئے ہے۔ جی ہاں، یہ ہستی ہے عثمان احمد خان بُزدار وزیر اعلیٰ پنجاب۔ شاید یہ راز پانچ سال راز ہی رہتا لیکن عمران خان صاحب نے اسے فاش کر دیا، ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے۔ خان صاحب فرماتے ہیں ’پنجاب کی خوش نصیبی ہے کہ اسے عثمان بُزدار جیسا لیڈرملا۔ پہلی مرتبہ پنجاب کو ایمان دار لیڈر ملا ہے۔ بُزدار ٹیم لیڈر ہیں‘۔ خان صاحب نے وزیرِ اعلیٰ کی ان تھک محنت اور شبانہ روز کاوشوں کو بھی خوب سراہا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بُزدار صاحب کی ان خوبیوں کا علم نہیں تھا۔ گمانِ غالب ہے کہ ایک مہینہ پہلے تک خان صاحب کو بھی عثمان بُزدار کی ان جملہ خصوصیات کا علم نہیں تھا، اگرہوتا تو وہ عثمان بُزدار کو وزیرِ اعلیٰ تعینات کرتے ہوئے قوم کو محاسن کی اس فہرست سے ضرور آگاہ کرتے، فقط یہ کہنے پہ اکتفا نہ کرتے کہ ’عثمان بُزدار کے گھر بجلی نہیں آتی‘۔ ایک مہینہ کے اندر جس طرح بُزدار صاحب نے کارکردگی کے بل پہ اپنا لوہا منوایا ہے معلوم انسانی تاریخ میں اُس کی نظیر ڈھونڈنا محال ہے۔

خان صاحب نے ایک مست مے ذات کا پردہ چاک کر کے ایک نیکی کی ہے، ورنہ ہم جیسے کوتاہ نظر بُزدار صاحب کی ایک ماہ کی وزارت اعلیٰ کو صرف دو حوالوں سے ہی جانتے، ایک تو ڈی سی او پاک پتن والا قصہ جس میں اُنہیں عدالت سے ڈانٹ بھی پڑ چکی ہے، اور دوسرے میڈیا سے گفت گو میں اُن کی لُکنت، اور اُن کے حواریوں کے لُقمے۔

دوسری طرف عمران خان صاحب نے عثمان بُزدار کو پنجاب کا پہلا ایمان دار لیڈرقرار دے کربہت سے تاریخی مغالطے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیے ہیں۔ ہماری سادگی دیکھئے ہم آج تک نواب افتخار حسین ممدوٹ، میاں ممتاز دولتانہ، غلام حیدر وائیں، ملک معراج خالد اور حنیف رامے جیسے پنجاب کے کئی وزرائے اعلیٰ کو ایمان دار بزرگ سمجھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے ان بزرگوں کی ’بے ایمانیاں‘ معاف کر دے اور ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).