ایک معروف این جی او کی کارستانیاں


کریم گزشتہ روز خیریت سے پہنچ گیا۔ جب یہ خبر دفتری ساتھی اور پڑوسی کامران نے سنائی، تو سن کر سکون حاصل ہوا، کیوں کہ ہم کامران سے کریم کے ساتھ پیش آنے والے ظالمانہ و بے رحمانہ سلوک سننے کے بعد اس کے خیر سے کراچی پہنچنے کی دعا دل و جان سے کر رہے تھے۔

کامران کی کریم سے شناسائی ایک عرصے سے ہے۔ اور وہ اس کے حال و ماضی سے بخوبی واقف ہیں۔ کامران نے ہی بتایا کہ کریم جب سرکاری ادارے میں کانسٹبل تھا، تو اپنی ماں کی علالت کی وجہ سے سرکاری نوکری چھوڑنے پر مجبور ہوگیا، کیوں کہ ماں کی تیمار داری کرنے والا دوسرا کوئی موجود نہیں تھا۔

سرکاری ملازمت چھوڑنے اور ماں کے گزر جانے کے بعد کریم مختلف نجی اداروں میں سیکیوریٹی گارڈ کی حیثیت سے ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دیتا رہا۔ اور پس انداز کی ہوئی رقم سے کراچی کی کچی آبادی جو اب مستقل ہو چکی ہے، میں 80 گز کا مکان بنانے میں کامیاب ہو گیا، تاکہ بڑھاپا کم از کم اپنے چھوٹے موٹے گھر میں سکون سے گزرے۔

کریم گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے مزید نوکری کے قابل نہ رہا، تو گھر والوں کو بوجھ محسوس ہوا۔ بیوی اور اولاد کا رویہ کریم کے کچھ نہ کمانے کی وجہ سے اس کے ساتھ تبدیل ہو چکا تھا۔ نا خلف اولاد نے باپ کو دھوکا دے کر مکان بھی اپنے نام کر وا لیا۔ کامران چند برس سے کریم کی مالی مدد بھی کر رہے ہیں، تاکہ اس کا دوا دارو چلتا رہے۔

گزشتہ دنوں جب کامران نے کریم کی مالی مدد کی، تو کریم نے بتایا کہ سب گھر والے میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں، گھر میں رہنا دوبھر کر دیا ہے، سمجھ نہیں آتا کیا کروں۔ کامران نے مشورہ دیا کہ کراچی میں معروف فلاحی و رفاہی ادارے موجود ہیں۔ ان سے رجوع کرو، ہوسکتا ہے وہ کچھ تمہاری مدد کریں۔

کریم نے کامران کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے، سول اسپتال، کراچی کے قرب میں واقع معروف این جی او کے دفتر کا رخ کیا۔ کیوں کہ اس این جی او کے سربراہ اور کرتا دھرتا آئے دن ٹی وی کے مارننگ شوز میں جلوہ افروز ہو کر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی حمایت میں باتیں کرتے ہیں۔ اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ اس طرح ان کی این جی او کو بھی مزید مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

کریم نے این جی او کے سربراہ سے بہت مشکلوں کے بعد ملاقات کی۔ دوران ملاقات این جی او کے سربراہ کی بیگم بھی موجود تھیں۔ کریم کے مسائل سننے کے بعد بیگم صاحبہ نے مدد کا وعدہ کیا اور کریم کو کراچی میں مقیم ایک خاص کمیونٹی کے شخص کے حوالے کر دیا۔ ان صاحب نے اپنے پلازہ کے سیکیوریٹی گارڈ کے ساتھ کریم کی رہائش کا بندوبست کر دیا اور گھر سے کھانا پینا بھی آنے لگا۔

کریم کے ذمے ان صاحب نے اپنے گھر سے متعلق تمام باہر کے کام لگا دیے، جن میں سودا و سلف لانا وغیرہ بھی شامل تھا۔ گھٹنوں میں تکلیف کے باوجود کریم ان کے فلیٹ میں سودا و سلف پہنچاتا رہا۔ دونوں میاں بیوی جب گاڑی میں خریداری کے لیے نکلتے، تو کریم کو بھی ساتھ لے لیتے اور اپنی حفاظت کے لیے پستول اس کے ہاتھ میں تھما دیتے تھے، کیوں کہ وہ سابقہ سیکیوریٹی گارڈ رہا ہے۔

وقت گزرتا رہا، کریم نے اپنے مالکان سے کہا کہ مجھ کو کچھ رقم بھی دے دیا کریں، تاکہ میں کم از کم اپنا دوا دارو تو کر سکوں۔ رقم دینے سے انکار پر کریم نے کہا کہ میرا بندوبست کسی ایسے گھرانے میں کر دیں، جہاں گھریلو کام کے عوض چار پیسے مل جایا کریں۔ تو جناب کریم کو گاڑی میں بٹھا کر اندرون سندھ سرحدی علاقے میں لے جایا گیا، جہاں اس کو ایک با اثر ادارے کے اعلی افسر کے حوالے کر دیا گیا۔

نئی کام کی جگہ پر کریم کے ساتھ ظلم و تشدد کیا جاتا رہا۔ کریم کا موبائل فون بھی اس سے چھین لیا گیا، تاکہ کریم کسی کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے آگاہ نہ کر سکے۔ نچلے درجے کے ایک ملازم نے چھپتے چھپاتے کریم کو اس جگہ سے رات گئے بھاگنے میں مدد کی، اور بتایا کہ یہاں تو جس طرح تم لائے گئے ہو، اسی طرح خواتین کو بھی لایا جاتا ہے اور سب کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔

کریم فرار ہونے کے بعد ادھر ادھر پریشان حال پھر رہا تھا، تو ایک پاکستانی ہندو شخصیت نے کریم کی مدد کی اور خوف میں مبتلا کریم کو مندر میں رہنے کی جگہ فراہم کی۔ بس کا کرایہ اور تھوڑی بہت رقم دی۔ اس طرح کریم واپس اپنے گھر کو پہنچا۔

اس تحریر کا مقصد کسی بھی رفاہی و فلاحی ادارے کے کام میں رکاوٹ ڈالنا نہیں ہے۔ تحریر کا مقصد یہ ہے کہ تمام رفاہی و فلاحی اداروں کے کرتا دھرتا، جب بھی اپنے ادارے کے توسط سے کسی مرد، عورت یا بچے کو کسی گھرانے کے حوالے کریں، تو پھر ان کی خبر گیری بھی کرتے رہا کریں کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے جانتے بوجھتے ہوئے اور منشا سے معاشرے کے ستائے ہوئے، افراد کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔

پاکستانی قوم دنیا بھر میں خیرات دینے والی صف اول کی قوموں میں شمار ہوتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ بھی ہے کہ عوام کسی بھی فلاحی و رفاہی ادارے اور مدارس کو خیرات، زکوة و چندہ دینے سے قبل فلاحی و رفاہی ادارے میں مقیم افراد اور فلاحی و رفاہی ادارے کے اسپتالوں میں مریضوں سے ملاقات کرکے ان کے حالات جانیں اور سوچ سمجھ کر خیرات، زکوة و چندے کی رقم کا استعمال کریں۔ مدارس کی اعانت کرتے وقت بھی ان امور کا خیال رکھیں۔

تاکہ فلاحی و رفاہی اداروں اور مدارس میں ہونے والی کارستانیوں اور بے ضابطگیوں کی پکڑ ہو سکے۔ اور کسی بھی بے یار و مددگار مرد، عورت یا بچے کے سات مستقبل میں وہ ظلم و ستم نہ ہو، جس کا سامنا کریم کو کرنا پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).