ایک نئی سنڈریلا


ہر گھر اور ہر خاندان کا ایک ڈیکورم ہوتا ہے جو آپ کو وہاں داخل ہوتے ہی مثبت یا منفی طور پہ متاثر ضرور کرتا ہے اور اس کے گھر کی ہر دیوار پہ بے حسی، دکھاوا اور سمجھوتہ لکھا ہوا تھا۔ سوال اٹھانے یا آنسو بہانے کی اجازت ہر گز نہ تھی۔

گھر میں ہونیوالے ہر بڑے فیصلے پر خاندانی وقار کو مستحکم رکھنے کے لئے سمجھوتے کے گھونٹ پینے پڑتے، ہر لمحے اس کو جتایا جاتا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے چہرہ لڑکوں جیسا، ہاتھ پاؤں بھدے اور قد بھی چھوٹا ہے اس لئے اس کے کوئی خواب نہیں ہونے چاہئیں، اس پر اس کے ہاتھ پاؤں میں سمجھوتوں کی زنجیروں اور گلے میں ذمے داریوں کے طوق نے اس میں معصومیت کی کوئی رمق نہیں چھوڑی۔

ان زخموں کے داغ بہت بد صورت دکھتے ہیں پر خواب باغی ہوتے ہیں کبھی گنگنانا سکھاتے ہیں کبھی مصوری اور کبھی رقص۔ اور ایسے انسان کے خواب اور منہ زور ہوتے ہیں جس کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو، کچھ دیر راہ فرار کے لئے ہی اس نے فیک آئی ڈی بنائی اور ہر اصلی پاکستانی خاتون کی طرح چُن چُن کر اپنے ہر رشتے دار کو بلاک کی دیوار پہ ٹانگ دیا کیونکہ حقیقت میں یہ ممکن نہ تھا کچھ آوازیں اور کچھ دوست حوصلہ بڑھانے کو آگے آئے پر اس میں اصل چہرہ دکھانے کی ہمت کہاں تھی تو فلٹرز کی فیری گارڈ مدر کے دیے ہوئے نقاب اوڑھے اور دوستوں کے سامنے آئی سب نے خوش آمدید کہا۔

اب وہ روز ملنے جاتی کبھی دیر سویر ہو جاتی تو اس دیوار کے پار سے ہری بتی جلتی اور کسی نہ کسی دوست کا پیغام آتا کہاں ہو جلدی پہنچو۔ اس نے گانا شروع کیا دوستیں خوش ہوئیں اور کہاں اب سامنے بیٹھ کر گانے گائیں گے۔ وہ ڈر گئی کہ اس کیاصل شکل دکھانے پر اس کییہ دوستیاں ختم ہوجائیں گی وہ بد صورت ہے اور وہ داغوں والے ہاتھ پاؤں کیسے دکھائے گی؟ لیکن اس ڈر سے بڑا یہ ڈر کہ زندگی میں پہلی بار وہ ویسے جی رہی تھی جیسی وہ تھی، وہ گھٹن سے تازہ ہوا میں آئی تھی، اس کو کسی کو خوش کرنے کے لئے دکھاوا نہیں کرنا پڑ رہا تھا وہ جتنا چاہے اونچا ہنستی جتنا چاہے روتی اور پیاز کاٹ رہی ہوں آنسو آرہے ہیں کا بہانہ بھی نہ بنانا پڑتا، ایک طرف آزادی تھی دوسری طرف دوستوں کو کھونے کا خدشہ۔ تو اس نے دوستوں سے مل کر خدشے سے جان چھڑانے کی سوچی کہ اگر قبول نہ بھی کی گئی تو دکھ اتنا نہیں ہوگا کہ یہ خون کے رشتے نہیں ہیں، دل کو تسلی دے لونگی کہ فیک پروفائل پر فیک لوگ ہی ملتے ہیں۔

وہ ڈرتے ڈرتے ان سب سے ملنے گئی اور اس کو حیرت کا پہلا جھٹکا تب لگا کب سب دوستوں نے اس کو بنا فلٹر پہچان لیا، دوسرا کسی نے چہرے/ قد کا مذاق نہیں بنایا، اس کو ان تمام داغوں سمیت قبول کرلیا گیا جو اس کو روشنی میں آنے سے روکتے تھے۔

زندگی، گھر، حالات اب بھی شاید ویسے ہی ہیں لیکن اب وہ زندگی کو بار نہیں سمجھتی خوش ہے اور گاتی ہے بس اب ایک خوف ہے کہ قسمت کی پری اس پر مہربان تھی جو اس کو انجان جگہ پہ مخلص دوست ملے لیکن ساتھ کے قید خانوں میں اگر کوئی راہ فرار اختیار کرے گا تو ان کی قسمت ان کو دغا نہ دے۔

ندا حسین جعفری
Latest posts by ندا حسین جعفری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).