مولانا ابصار عالم شیرانی۔۔۔


\"mustafaارے بابو لوگ کاھے کو مولانا شیرانی کے پیچھے پڑ گئے ھو سارے۔ اس بیچارے نے صرف اتنا ہی تو کہا ھے کہ بیوی پر ھلکا پھلکا اور حسب ذائقہ تشدد جائز ھے۔ مولانا جن قبائلی روایات کا امین ھے اس میں تو عورت کو محض ایک چیز سے زیادہ کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ ایک ایسی چیز جس کا کام مرد کی ہاں میں ہاں ملانا ھے جہاں وہ ہاں کی بجائے آنکھ ملانے کی جرات کرتی ھے اسے اس کی جرات سمیت وہاں بھیج دیا جاتا ھے جہاں سے نہ آج تک کوئی شیر کا بچہ یا بچی واپس نہیں آے۔ خدا جانے مولانا نے اپنے بچپن میں کتنی بار اپنی والدہ کو اپنے والد صاحب سے پٹنے کے کچھ ہی لمحوں بعد سب کچھ بھول بھال کے اس پرتشدد آدمی کے آگے پیچھے ہوتے اور معافی کی درخواستیں کرتے دیکھا ھو گا

ھو سکتا ھے اس پرتشدد باپ نے ننھے شیرانی کو گود میں بیٹھا کر گاڑھی پشتو میں یہ فرمایا ھو \”\” محمّد خانا زما جانانہ یہ جو عورت ہوتا ھے یہ ٹیڑھی پسلی کا پیداوار ہوتا ھے۔ اسی عورت نے ہمارے باپ آدم خان کو جنت سے نکلوایا۔ اگر بابا آدم اماں حوا پر ہلکا پھلکا تشدد کرتا ہوتا تو وہ کبھی ابلیس خنزیر کا باتوں میں آ کر بابا سے خدا کے حکم کا نافرمانی نہ کرواتی\”

یہ بھی ہو سکتا ھے که شیرانی صاحب نے یہ سبق اپنے والد کی بجاے قبیلے کے مشترکہ حجرے میں حقے گڑگڑاتے ان مردوں سے سیکھا هو جو ہر اس آدمی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنانا واجب سمجھتے ہیں جسے اپنی بیوی سے تھوڑی بہت محبت ہوتی ھے ۔ ایسے حجرہ بردار اس آدمی کو زن مرید اور عورت کے گھٹنے سے بندھا جانور کہہ کہہ کر کامیڈین بنتے رھتے ہیں

هو سکتا ھے ہمارے شیرانی صاحب اس معاشرے میں جوان ھوے ہوں جہاں بوڑھا ہونے پر پرتشدد مردوں کی طاقت ہاتھ کی سے نکل کر زبان میں منتقل ھو جاتی ھے۔ وہ ہاتھ سے جسم زخمی کرنے کی بجاۓ زبان سے عورت کی روح زخمی کرنے کا فرض ادا کرنے لگتے ھیں۔

یہ بھی ھو سکتا ھے کہ ننھا شیرانی دن بھر مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب ڈھلتی شاموں میں در در وظیفے لینے جاتا ھو تو کسی نہ کسی گھر میں عورت کو پٹتا دیکھتا اور سمجھتا ہو کہ بابا آدم کا بدلہ لیا جا رہا ھے ۔

یہ سب ممکنات ھیں ایسا ھو بھی سکتا ھے اور نہیں بھی۔ مگر یہ ایک حقیقت ھے که ایک قبائلی اور مردانہ معاشرے میں پروان چڑھنے والا بچہ جب اسلامی نظریاتی کونسل کی کرسی پر چڑھتا ھے تو پھر ایسے ہی چن چڑھاتا ھے۔ آپ اس سے اسی ہلکے پھلکے تشدد کی توقع رکھیں۔ یہ امید ہرگز نہ کریں کہ وہ آپ کی عورتوں کو ماروی سرمد یا سبین محمود ھونے کا درس دے گا

لیکن جب ایک ایسا بچہ جو کسی قبیلے کا نہیں قلم قبیلے میں جوان ہوا ھو جس کو ہم سب نے ہمیشہ مغربی پہناوے میں دیکھا هو جس کے چہرے پر مولانا شیرانی کی سی داڑھی بھی نہ هو وہ جب پیمرا کی کرسی پر چڑھتا ھے تو اس کا پاؤں ٹی وی ڈراموں اور مانع حمل اشتہارات کی گردن پر کیوں ہوتا ھے۔

وہ کیوں ایسی حرکتیں کرتا ھے جن میں کوئی برکتیں نہیں ھوتیں۔

ھو سکتا ھے ابصار عالم کے اندر بھی ایک چھوٹا سا مولانا شیرانی چھپا بیٹھا هو

هو سکتا ھے ابصار عالم کو بھی بیماروں سے بچاؤ کے وھی اسلامی ٹیکے لگے ھوں جو ڈاکٹر ضیاء الحق نے متعارف کئے تھے۔

یا یہ بھی هو سکتا ھے که نئے نئے مسلمان کی طرح چیئرمین پیمرا میں بھی پانچ کی بجاۓ چھ نمازیں پڑھنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رھا هو۔ اس لئے وہ ھر اس ڈرامے کو نوٹس بھیجے جا رھے ھیں جن میں کوئی سوال کیا جا رھا ھو۔ ھر اس اشتہار کو پابندی کا سامنا ھے جس کو دیکھ کر آپ سے آپ کا بچہ یا بیٹی کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ کیوں کہ حفاظتی ٹیکوں میں ایک ٹیکہ یہ بھی تھا کہ سوال نہیں کرنا اور یہی کلنک کا وہ ٹیکا ھے جسے دو اہم اداروں کی سب سے بڑی کرسیوں پر بیٹھے مولانا ابصار اور مولانا شیرانی ہم سب کے ماتھے پر ٹکانے کی پوری کوشش کر رھے ھیں۔

معذرت که میں سی آئ آئ اور پیمرا کو اہم ادارے کہہ گیا۔ میں چاھوں تو اھم کا لفظ مٹا سکتا ہوں لیکن نہیں مٹاؤں گا۔۔ میں نے جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ کیوں که میرے اندر بھی ایک ابصار عالم اور علامہ چھپا ہوا ھے شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments