کراچی الیکشن : حساب جوں کا توں…. کنبہ ڈوبا کیوں؟


کہتے ہیں کہ بہت ہی پرانے زمانے میں ایک نہایت ہی صالح شخص ہوا کرتا تھا۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اس نے علم ریاضی میں اتنا کمال پایا کہ اوسط نکالنی سیکھ گیا۔ بس پھر کیا تھا، اپنے علم سے خوب فائدہ اٹھانے لگا۔ بازار جاتا تو کئی خوانچہ فروشوں سے آلو کی قیمت دریافت کرتا، پھر اوسط قیمت نکال کر اندازہ کرتا کہ مناسب بھاﺅ کیا ہے اور جو خوانچہ فروش اس کے قریب بیچ رہا ہوتا، اس سے خرید لیتا۔ سارے گاﺅں میں اس کے علم اور دانش مندی کی دھاک بیٹھ گئی اور اسے بھی یقین ہو گیا کہ اوسط کا قاعدہ کبھی دھوکہ نہیں دے سکتا۔

کچھ دن بعد اس صالح شخص کو دریا پار ایک شادی میں شرکت کا سندیسہ آیا۔ اب صالح بھائی ایک عیالدار آدمی تھے۔ پورا کنبہ لے کر چلے۔ دریا کنارے ملاح سے نیا پار لگانے کا ریٹ پوچھا تو اس نے فی بندہ دس روپے بتا دیا۔ صالح بھائی نے ترنت حساب جوڑا کہ ان کے چودہ رکنی کنبے کے ایک طرف جانے پر ہی ایک سو چالیس روپے اٹھ جائیں گے۔ انہوں نے بھاﺅ تاﺅ کرنے کی کوشش کی لیکن ملاح نہ مانا اور پھر مسلسل بک بک جھک جھک سے تنگ آ کر کہنے لگا کہ میاں ایسا ہی پیسے بچانے کا شوق ہے تو پیدل دریا پار کر جاﺅ۔ اب صالح میاں کو تیرنا تو آتا نہیں تھا، اس لیے پیدل چل کر ہی جا سکتے تھے۔

ملاح سے پوچھنے لگے کہ میاں کنارے پر دریا کتنا گہرا ہے؟ ملاح نے بتایا دو فٹ۔ اور درمیان سے؟ آٹھ فٹ۔ اور دوسرے کنارے پر؟ دو فٹ۔

صالح میاں نے ترنت اوسط نکالی۔ دریا اوسطاً چار فٹ گہرا نکلا۔ انہوں نے فیتہ نکال کر اپنے کنبے کے قد ناپے۔ دو بچے تین فٹ کے نکلے، تین بچے چار فٹ کے تھے، چار پانچ فٹ کے، تین چھے فٹ کے تھے، بیگم پانچ فٹ کی اور صالح بھائی چھے فٹ کے۔ پورے کنبے کی اوسط لمبائی پونے پانچ فٹ سے زیادہ نکلی، یعنی سر اور کاندھے چار فٹ گہرے پانی سے باہر رہتے۔ انہوں نے سارے کنبے کو دریا پار کرنے کا حکم دے دیا۔ جب کنبہ بیچ منجدھار میں پہنچا تو غوطے کھانے لگا۔ ملاح اور دوسرے لوگوں نے آ کر ان کی جان بچائی اور ان کی حماقت پر بہت لعن طعن کی۔

صالح صاحب نے دوبارہ حساب کتاب جوڑا اور اوسط نکالی۔ اوسط پھر چار فٹ نکلی۔ صالح میاں پریشان ہو کر بولے ”حساب جوں کا توں، کنبہ ڈوبا کیوں“ ؟
امید ہے کہ کراچی کے الیکشن میں حسب معمول بری طرح ہارنے والے بھائی لوگ نتائج آنے کے بعد اوسط نکال نکال کر اس سوال پر خوب غور کر رہے ہوں گے۔

اوسط کے قاعدے سے تو الیکشن میں ہارنے والوں کا یہ حال نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ جو اپنا چار پانچ دہائیوں سے اب تک کا اس شہر کا جو ریکارڈ دکھا رہے تھے، اس کی اوسط کے حساب سے تو فتح یقینی ہے۔ لیکن اگر حسب توقع ان کا الیکشن سے پیشتر لگایا جانے والا فتح کا نعرہ سرداروں کے \” واہگرو جی کا خالصہ، واہگرو جی کی فتح\” والا نعرہ ہی نکلا، جو کہ سردار لوگ کوئی عظیم کارنامہ کرنے سے پہلے لگاتے ہیں، تو پھر کیا ہو گا؟

بس پھر سب مل کر یہی سوچیں گے کہ حساب جوں کا توں، کنبہ ڈوبا کیوں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments