کچھ احوال بشکک کا


\"usmanبشکک، قرغزستان سے خادم کا آداب. آج ہمارے پانچ روزہ دورے کا آخری روز ہے سو سوچا کہ طویل غیر حاضری کے اعتذار کے طور پر اس شہر کو چھ سال بعد مراجعت کی روداد بلکہ محترم دوست عابد میر کے بقول \”حال حوال\” نذر دوستاں کیا جاے. اس \”حوال\” کو انہی صفحات میں چھپنے والے ہمارے ایک پرانے خط کی ہی توسیع سمجھ لیجئے، جس میں خادم نے اس ملک کے جغرافیے اور ماحول کا مختصر تعارف کروایا تھا..

 

دوستوں کو علم ہوگا کہ قرغزستان پورے وسط ایشیا میں واحد کثیر الجماعتی جمہوریہ ہے. اس نظام کی داغ بیل خادم کے پچھلے قیام کے دوران، سن ٢٠١٠ میں ڈالی جا رہی تھی. آج اس بوٹے کو، اس کے خار و ثمر سمیت پروان چڑھتے دیکھ کر یک گونہ مسرت ہو رہی ہے. اگرچہ طاقت اب بھی چند سری ڈھانچے میں ہی گردش کر رہی ہے اور لوگوں کو حکام کی چیرہ دستیوں اور عدم مستعدی سے گلے بھی ہیں، مگر یہ گلے شکوے بر سر عام کر پانے کی اجازت پر ہی عام لوگ مسرور ہیں. یہ دیگر مستبد وسطی ایشیائی، بلکہ اکثر سابق سوویتی ریاستوں کی نسبت ایک کھلا معاشرہ ہے اور اس کھلے پن کے کلچر کی تقطیر ہمیں اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران ہر جگہ محسوس ہوئی. دفاتر میں اہل کار اپنے افسران سے برملا اختلاف راے کا حوصلہ اور سلیقہ رکھتے ہیں، پریس بھی نسبتا آزادی سے حکومت پر تنقید کرتا ہے. دو ہزار دس میں یہاں ہونے والے پر تشدد واقعات کے سبب سرمایے کا جو انخلا، اور اس کے سبب اقتصادی \"112\"ماحول پر ادبار آیا تھا، اس کے اثرات بھی کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں. مثلا بشکک شہر کے گلی کوچوں میں اکا دکا بھیک مانگتے، اور کثیر تعداد میں پھیری لگاتے جو اکثر ضعیف لوگ نظر آتے تھے، ان کی تعداد میں معتدبہ کمی نظر آتی ہے. ہر طرف نئی تعمیرات جاری ہیں. اگرچہ اس تعمیر نو کی زد میں کئی ایسے مقامات بھی آ گئے ہیں جہاں چھے سال پہلے ہم ٹھیکی جمایا کرتے تھے اور ان سے ہماری جذباتی وابستگی تھی، مگر غالب کے کہے \”مردہ پروردن مبارک کار نیست\” پر عمل کرتے ہوۓ ہم اس پر بھی خوش ہیں. جی کا بہت سا ملال اس وجہ سے بھی دھلا کہ مدتوں بعد اپنے وطن عزیز کویٹہ کے بچپن کی یاد تازہ ہوئی کہ بغیر پنکھے یا اے سی کے صرف کھڑکی کھول کر سوتے رہے اور نل سے براہ راست بھر کر چشمے کے پانی کے خم پر خم لنڈھاتے رہے.

 

چند چیزیں البتہ رو بہ استقلال ہیں جن میں سے ایک دو شاید \”ہم سب\” کے دوستوں کے لئے دلچسپی کا سبب ٹھہریں. آپ نے ہمارے شہروں میں سیاہی مائل جلد کی حامل، بقول میجر خورشید قائم خانی، \”بھٹکتی نسلیں\” دیکھی ہوں گی. انہیں ہمارے ہاں \”پکھی واس\”، \”باگڑی\”، \"110\"\”لچھی\”، \”تور خیل\” وغیرہ پکارا جاتا ہے. بھیک مانگنا، فصلوں کی کٹائی میں مزدوری، جسم فروشی قسم کے سخت اور ادنی کام معاشرے نے ان کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں. یورپ میں انہیں \”جپسی\” یا \”رومانو\” کہتے ہیں اور لوگ اور ریاستیں انہیں تحقیر و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں. وسط ایشیا میں یہ \”لولی\” کہلاتے ہیں اور ہمیں قرغزستان کے علاوہ تاجکستان، قازقستان اور ازبکستان میں بھی ملے. حیرت ناک بات یہ ہے کہ وسط ایشیا بھر میں ان کی زبان فارسی ہے. یہاں یہ لوگ اوپر گنواے گئے کاموں کے علاوہ جادو ٹونے کے اثرات زائل کرنے کے نام پر ضعیف الاعتقاد لوگوں سے رقم بٹورنے کا کام بھی کرتے ہیں. ان میں کی ایک خاتون المیرا نامی، ہمارے پچھلے قیام کے دوران ہر روز دفتر کے راستے میں ملتی تھی اور ہم اپنی فارسی کی مشق اس سے ایک دو جملے بول کر کیا کرتے تھے. پرسوں ہم ایک پر ہجوم گلی سے گزرتے اپنی قیام گاہ کو لوٹ رہے تھے کہ آواز سنائی دی، \”آقاے پاکستانی، چہ وقت آمدی؟\”. مڑ کر دیکھا تو المیرا بی بی اپنے سونا مڑھے دانتوں کے ساتھ ایک جانب براجمان تھیں. ان کی بچی جو تب گود میں ہوا کرتی تھی، اب ماں کے ساتھ طمطراق سے بیٹھی گداگری کے اسرار و رموز سیکھ رہی تھی. اور ہمت کر کے آتے جاتے کا دامن کھینچ کر بھیک کی طالب ہوتی تھی. گداگر سہی، تھی تو دیرینہ آشنا.. سو ہم نے معمول سے ذرا زیادہ رقم نذر گزاری اور المیرا بی بی نے ہم پر جادو ٹونے سے حفاظت کا ایک منتر بر سبیل ارتجال پھونکا. کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

 

آپ نے پاکستانی اردو اخبارات میں اکثر وسط ایشیائی ریاستوں میں طبی تعلیم کے اشتہارات دیکھے ہوں گے. قرغزستان اس کاروبار کا مرکز چھے برس قبل بھی تھا اور آج بھی اب و تاب سے یہ کام جاری ہے. در اصل یہاں کی سرکاری جامعات میں تعلیم کا معیار سخت ہے. وہاں روسی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تدریس کی جاتی ہے، حاضریوں کو یقینی بنایا جاتا ہے اور ان میں کمی پر امتحان میں بیٹھنے کی \"114\"اجازت نہیں دی جاتی. طالع آزما جنوبی ایشیائیوں کے ایک گروہ نے سرکاری جامعہ کی اچھی شہرت کا فائدہ اٹھا کر، اس سے ملتے جلتے ناموں کے ایک دو طبی تعلیم کے ادارے نجی شعبے میں کھول رکھے ہیں. اشتہارات میں نام \”بشکک میڈیکل یونیورسٹی\” کا لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ جو \”نیو\” یا \”پرائیویٹ\” کا دم چھلہ ہے، اسے گول کر دیتے ہیں. پاک و ہند کے نوجوان اس دام تزویر میں الجھ کر چلے آتے ہیں اور یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ یونیورسٹی تو ایک اپارٹمنٹ بلاک میں قائم ہے، جس میں صرف بر صغیر کے لوگ تعلیم پاتے ہیں، بالائی منزلوں پر ہاسٹل ہیں اور تہہ خانوں کے گوداموں کو خالی کر کے وہاں لیکچر دیۓ جاتے ہیں. یہ لیکچر دینے کے لئے سرکاری یونیورسٹی کے حاضر سروس یا سبک دوش اساتذہ جز وقتی طور پر بلاے جاتے ہیں، مگر اس \”یونیورسٹی\” کے ساتھ کوئی اسپتال منسلک نہیں ہے. تعلیم اگر کوئی ہے بھی، تو صرف کتابی ہے. ان میں سے ایک ڈگریوں کا کارخانہ ہمارے موجودہ دفتر کے بالمقابل واقع ہے اور جنوبی ہند، وسطی پنجاب وغیرہ کے طلبہ و طالبات آتے جاتے نظر آتے ہیں. اس میں ایک ظالمانہ پہلو ہمیں یہ پتا چلا کہ پہلا سال گزرنے کے بعد جب کوئی طالب علم گھر جاتا ہے، تو اس کے مالکان (جو ہندوستانی، پاکستانی اور قرغز سرمایہ کاروں کا ایک چھوٹا سا گروہ ہے) اسے لالچ دیتے ہیں کہ اگر وہ وہاں سے دو یا تین نئے پنچھی پھانس کر لے آے تو اسے فیس میں رعایت یا وظیفہ دیا جاے گا. چنانچہ یہ نوجوان واپس آ کر حقیقت حال سے کسی کو آگاہ نہیں کرتے اور مزید لوگوں کو اس کنویں میں گھسیٹ لیتے ہیں. واپسی پر ان کی ڈگریوں کو کوئی ادارہ تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان میں بطور ڈاکٹر رجسٹریشن کے لئے لازمی امتحان میں کامیابی کی ان میں قابلیت نہیں ہوتی. قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ بچوں کو تعلیم کے لئے وسط ایشیا یا سابق سوویت یونین بھیجتے وقت خوب اچھی طرح چھان بین کر لیں کہ کہیں تصویر کوئی اور دکھائی جا رہی اور رشتہ کسی اور سے پس پردہ طے ہو رہا ہو.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments