اصولوں کے ساتھ جینا کتنا مشکل ہے


ہمارے ملکی حالات میں بڑے بڑے نشیب و فراز آتے رہے ہیں اور آج بھی ہمیں ان کا سامنا ہے۔ کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب عمران خاں کی کاوشوں سے ہمارے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں، اربوں کا جاری خسارہ ختم ہو گیا ہے اور پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ خوشخبری بھی سننے میں آ رہی ہے کہ تارکین وطن ہر ماہ دو ارب ڈالر سے زائد ارسال کر رہے ہیں اور ہماری برآمدات میں اضافہ بھی حوصلہ افزا ہے۔ اسی طرح تعمیراتی شعبے میں بھی بہت رونق ہے اور درآمدات پر پابندی لگ جانے سے چینی برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ مقامی صنعتوں کے قیام اور فروغ میں پاکستانی سرمایہ کار بڑی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ہمارے وزیرخزانہ جناب عبدالحفیظ شیخ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک جناب عشرت حسین نے دو روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں یہ مژدہ سنایا ہے کہ پاکستان کا اسٹیٹ بینک آئندہ ایک آزاد اور خودمختار ادارے کے طور پر کام کرے گا۔

ایک طرف انتہائی خوش نما اعلانات ہیں اور دوسری طرف عوام کے لیے جینا محال ہو گیا ہے۔ مہنگائی اس قدر زیادہ ہے کہ ہمارے درویش صفت وزیراعظم بھی عالم اضطراب میں کہہ اٹھے ہیں کہ تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہو رہا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ساٹھ فی صد شہریوں پر کیا قیامت گزر رہی ہو گی۔ معلوم نہیں یہ حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسی کا کیا دھرا ہے یا ہمارے کاروباری طبقوں میں رچی بسی حرص و ہوس کا شاخسانہ ہے کہ روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں اور ملاوٹ کے باعث طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

مکانات کی قیمتیں بلامبالغہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اچھی تعلیم کا حصول روز بروز ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کوویڈ۔ 19 نے یہ تکلیف دہ حقیقت بھی اجاگر کر دی ہے کہ ہمارا نظام صحت بھی جاں لیوا ہے۔ حکومت کا ڈلیوری سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ارباب بست و کشاد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے تو نہایت جابرانہ طور طریقے استعمال کرتے ہیں، مگر عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا انہیں ذرہ برابر خیال نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو پرفریب اور دلوں کو لبھانے والے نعروں سے دھوکا دیتے اور ووٹ لیتے رہیں گے، مگر سمارٹ ٹیلی فون کا جو انقلاب آیا ہے، اس سے حکمرانوں کے مواخذے کا ماحول بن رہا ہے۔ اب اقتدار بتدریج پھولوں کے بجائے کانٹوں کی سیج بنتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ جناب عمران خاں لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کی تعمیر اور زیبائش پر توجہ دے رہے ہیں جو ایک قابل تحسین فلاحی تحریک ہے۔

آج عوام کے لیے جہاں روزگار کا حصول بڑا دشوار ہے، وہاں شرافت سے زندگی بسر کرنا محال تر ہے۔ اداروں کی طرف سے آئین کی صریح خلاف ورزیوں نے بڑے بڑے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اقتدار کی چھینا جھپٹی کا ایک تباہ کن کھیل جاری ہے۔ اس کھیل میں شہریوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور سیاسی اخلاقیات کے صبح و شام جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ٹی وی پر اخلاقیات کا درس ہمارے وزیراعظم بڑے خشوع و خضوع سے دیتے ہیں۔ حکومت کے ترجمان جو عوام کے ٹیکس پر پل رہے ہیں، ان کا صرف کام یہ ہے کہ اس قدر بدزبانی سے کام لیا جائے کہ کسی ’دیدہ ور‘ کی بات نہ سنی جا سکے۔

فضول باتوں پر وقت ضائع کرنے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے ملک میں ریل اور ہوائی جہاز کے حادثات سوہان روح بن گئے ہیں، سفر کے ذرائع غیرمحفوظ ہو چکے ہیں اور شہر کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ اب حکمرانوں کا عوامی مسائل سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ کراچی اور لاہور میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

ڈسکہ ضمنی انتخاب میں جو کچھ ہوا، اس نے حکمران جماعت کے زعم پارسائی کی قلعی کھول دی ہے۔ ہماری انتخابی تاریخ میں پہلی بار بیس پریذائیڈنگ افسر ووٹوں کے بیگز کے ساتھ اغوا کر لیے گئے۔ اس پر چیف الیکشن کمشنر نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم صادر کر دیا۔ چند روز بعد سینیٹ کے انتخاب کے نتائج سے ایک زلزلہ آ گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سولہ ارکان قومی اسمبلی نے غالباً اپنی قیادت سے اختلاف کی بنیاد پر پی ڈی ایم کے امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیے۔

اس پر وزیراعظم نے اعلان کیا کہ یہ سولہ ارکان بک گئے ہیں جو کڑی سزا کے مستحق ہیں، مگر دو روز بعد اسی بکاؤ مال سے انہوں نے اعتماد کا ووٹ لینے میں کوئی اخلاقی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جو بیشتر سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں ایک لاحاصل عمل تھا۔ ستم یہ کہ اعتماد کا ووٹ لینے کی خرمستی میں پی ٹی آئی کے جیالے مسلم لیگ نون کے سینئر قائدین پر ٹوٹ پڑے جو پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ انہوں نے خاتون کو بھی زد و کوب کیا جو ہماری معاشرتی قدروں کے سخت منافی ہے۔

سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا معرکہ درپیش تھا۔ حکومت کی طرف سے موجودہ چیئرمین جناب صادق سنجرانی نامزد کیے گئے جبکہ پی ڈی ایم کے امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی تھے جس کی سینیٹ میں اکثریت ہے، لیکن بڑے باپ کے بیٹے جناب شبلی فراز، وفاقی وزیراطلاعات کا ارشاد ہے کہ وہ ہر حال میں اور ہر قیمت پر اپنا امیدوار کامیاب کرا کے رہیں گے۔ ان کا یہ اعلان اخلاقی معیار سے فروتر اور قابل مذمت ہے۔ آج ہمیں ماحولیاتی کثافت سے زیادہ اخلاق باختگی کے انتہائی سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔

سیاست میں شفافیت اور اخلاقی شعور پیدا کرنے کے لیے ہمیں الیکشن کمیشن کو حقیقی معنوں میں طاقت ور اور خودمختار بنانا ہو گا۔ جناب چیف الیکشن کمشنر نے جس بلند ہمتی اور بالغ نگاہی کا ثبوت دیا ہے، اس کی سول سوسائٹی کی طرف سے مکمل حمایت کی جانی چاہیے تاکہ انتظامیہ کو حد میں رکھا جا سکے اور انتخابات میں خلل ڈالنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جا سکیں۔ وزرائے کرام جو الیکشن کمیشن کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں، انہیں توہین عدالت کے نوٹس کے تحت سزا دی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments