ملک ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے


اب کسی دہائی کی چنداں ضرورت نہیں۔ سب کچھ نہاں ہو چلا ہے۔ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ لیکن سب اپنی اپنی فکر میں غلطاں۔ مملکت خداداد نے بڑے بڑے بحران دیکھے ہیں، جیسا اب ہے ویسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ کوئی ایک کل بھی تو سیدھی نہیں، اوپر سے سیاست باہم دست و گریباں، معیشت بے حال، عدلیہ بے وقار ، مقتدرہ تماش بین اور عوام روزی روٹی سے محروم۔ پاکستان کدھر جارہا ہے؟ ہے کسی کو فکر؟ انتخابات کی پہلی قسط کا بگل منقسم سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے نے بجا دیا ہے۔ پنجاب میں صوبائی انتخابات کیلئے 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا جاچکا ہے، جب کہ خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کے سوا گورنر کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی انتظامیہ ان کے انعقاد کیلئے تعاون پہ قطعی تیار نہیں۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ جو جوا سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کھیلا تھا، اسی کو دہرا کر موجودہ وزیر خزانہ نے بازی تقریباً ہاردی ہے۔ پلے نہیں ہیں دانے میاں صاحب چلے ہیں آئی ایم ایف کی بھٹی پہ بھنانے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت کی تقریباً ایک برس کی کارکردگی اتنی بری رہی کہ، عمران حکومت کی عدم کارکردگی کا نواز شریف حکومت کی قدرے بہتر کارکردگی سے موازنہ کسے یاد ہے۔ ہارے ہوئے جواری کی طرح اسحاق ڈار کے جھلانے سے آئی ایم ایف کی سخت ہوتی ہوئی شرائط میں کوئی نرمی آنے والی نہیں۔ اوپر سے مارچ تا اکتوبر تک دو قسطوں میں انتخابات کا بوجھ یہ ملک اٹھائے گا تو کیسے، جبکہ ان کے بطن سے سیاسی خلفشار اور انتخابی تنازعات کے سوا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ عمران خان اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم اور چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو کے طلب گار۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کے تقاضے کے ساتھ ساتھ موجودہ آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کی التجا۔ ایک بار فوج کے کندھوں پہ سوار ہوکر حکومت میں آنے اور پھر گرائے جانے کے تلخ وشیریں تجربات کے باوجود حریف سیاستدانوں سے بات چیت کے ذریعے جمہوری عبور کی جانب بڑھنے کا کوئی متفقہ راستہ نکالنے کے بجائے پھر سے عسکری بیساکھیوں کے سہارے کی آس۔ دوسری طرف ریاست کی خاطر سیاست کو قربان کرنے والے عمران خان سے سیاسی مکتی کیلئے خان کی نااہلی کے ساتھ ساتھ، میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے خاتمے کے بنا انتخابی عمل میں کودنے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ ایسے میں سیاسی ڈیڈلاک ٹوٹے تو کیسے؟

گوکہ عمران خان نے ایک ہی وقت پر سارے انتخابات کے انعقاد کی رعایت کا اشارہ تو دیا ہے، لیکن شاید اس شرط پر کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ہی فوراً منعقد  کئے جائیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ انتخابات کا التوا ان کی نااہلی کو یقینی بنانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اتحادی حکومت اپریل مئی میں دو صوبوں کے انتخابات پہ اس لئے تیار نہیں کہ عوامی فضا فی الوقت عمران خان کے حق میں ہے اور دو صوبائی انتخابات جیت کر تحریک انصاف قومی انتخابات پر بھی فیصلہ کن طور پر اثرانداز ہوسکے گی۔ البتہ یہ خدشہ اپنی جگہ سوفیصد درست ہے کہ دو قسطوں میں انتخابات سے سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ جائے گا۔ ایسے میں قومی اسمبلی کےا سپیکر اور الیکشن کمیشن کے آئینی استحقاق کو ملیا میٹ کرتے ہوئے ہائیکورٹس نے تحریک انصاف کے مستعفی اراکین کی بحالی کر کے قومی اسمبلی میں فریقین میں بات چیت کیلئے سیاسی راہ ہموار تو کر دی ہے، بشرطیکہ مخالفین سیاسی مکالمے پہ تیار ہوں۔ ٹکریں مارتے مارتے سیاستدان شاید اس ضرورت پر متفق ہوتے نظر آرہے ہیں کہ انتخابات ایک ہی وقت پہ ہوں اور سب کیلئے میدان ہموار ہو۔ لیکن کیسے اور کب؟ اس کیلئے میں نے متحارب سیاسی کیمپوں سے ٹوہ لیتے ہوئے کچھ نکات ترتیب دئیے ہیں جن پر اتفاق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔

عمران خان کا بڑا خدشہ ہے کہ انہیں انتخابات سے قبل نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ انہیں نااہلی سے استثنا حاصل ہو جس کیلئے وہ بار بار آرمی چیف سے ملاقات کرنے کی استدعا کرتے رہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ گارنٹی وہی دے سکتے ہیں لیکن کیوں نہ اتحادی جماعتیں عمران خان کو یہ گارنٹی فراہم کریں اور عمران خان نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے پہ متفق ہوتے ہوئے ہموار میدان کی راہ ہموار کریں اور ہر دو اطراف اگست / اکتوبر میں اکٹھے انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کریں۔ انتخابات کو اگست / اکتوبر تک لے جانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے اور اس پر عمل درآمد کا وقت بھی مل جائے۔ اگر اس پر کچھ لے دے ہوجائے تو عمومی نکات پہ بھی اتفاق ہوسکتا ہے جو درج ذیل ہیں۔

1۔ تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی اور اس کے قائد حزب اختلاف کا تقرر۔

2۔ احتساب کے قوانین میں تبدیلی تاکہ سیاستدانوں کے خلاف کی جانے والی ماضی کی زیادتیوں اور مستقبل کی حق تلفیوں کا سدباب کیا جاسکے، جس سے عمران خان اور نواز شریف کو انصاف میسر آسکے اور وہ سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں۔

3۔ تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کا ایک ہی تاریخ پر اگست / اکتوبر کے دوران انعقاد جو نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہو۔

4۔ تمام جماعتوں کا انتخابی قواعد، ضابطہ اخلاق اور انتخابی عمل پر قومی اتفاق رائے تاکہ آزادانہ و منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنایا جاسکے۔

5۔ تمام آئینی عہدوں بشمول افواج پاکستان کے سربراہان کی مدت تین سال تک محدود رکھی جائے۔

6۔ پارلیمنٹ کی خود مختاری اور سویلین سپرمیسی کیلئے آئینی و قانونی اور ادارہ جاتی اصلاحات۔

7۔ حق اظہار، حق زندگی، بنیادی انسانی و شہری حقوق کی اقوام متحدہ کے اعلان ناموں کے مطابق ضمانت دی جائے۔

8۔ دہشت گردی اور مذہبی و نسلی انتہا پسندی کا سدباب۔

9۔ اچھی حکومت اور بنیادی عوام دوست معاشی پالیسیوں پہ قومی اتفاق رائے۔

اگر مندرجہ بالا پالیسی معاملات پہ اتفاق ہوجاتا ہے تو پاکستان اپنے موجودہ بحران سے سیاسی طور پر نکلنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ البتہ ریاست و معیشت کو جو خطرات درپیش ہیں، ان کے حل کیلئےدیرپا پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔

کاش ! سیاستدان اب بھی معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے دل سے بات چیت کا آغاز کریں۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

امتیاز عالم

بشکریہ: روزنامہ جنگ

imtiaz-alam has 58 posts and counting.See all posts by imtiaz-alam

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments