بشری بی بی ملک کی تمام بیویوں کی رول ماڈل ہیں


بچپن سے ایک ایک نمبر کے پیچھے جان دینے والوں کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو بھی ایک امتحان ہی سمجھ لیتے ہیں جس میں ان کا ٹاپ کرنا لازم ہے۔ یہی بیماری ہمیں بھی لاحق تھی۔ چلئے تعلیم حاصل ہو گئی۔ شادی بھی ہو گئی۔ لیکن ہمارا کیڑا نہ مرا۔ اب یہ فکر لاحق تھی کہ کس طرح ایک پرفیکٹ بیوی بنا جائے۔ زندگی کے اس مرحلے کو بھی ایک ریسرچ پیپر ہی سمجھ لیا۔ صبح شام اس میں بھی امتیازی نمبر لینے کی تگ و دو میں جٹ گئے۔ کہیں پڑھا کہ شوہر کے دل کا راستہ معدے سے گزر کر جاتا ہے۔ پراٹھے کو وہ بل دینا شروع ہوئے کہ گھی جلنے لگا۔ قورمے کے مصالحے کو اس قدر بھونا کہ نہ بندہ رہا نہ بندہ نواز۔ کبھی ان کے استری شدہ کپڑوں کو دوبارہ استری کرنا شروع کر دیتے تو کبھی ان کے گھر آنے سے پہلے ہی سجا ہوا ٹرک بن کر تیار ہو جاتے۔

لیکن کچھ باتیں ایسی بھی تھیں جو ہمارے بس سے باہر تھیں۔ جیسے چادر برقع ورنہ دوپٹے کا پلو بھی گھٹنوں تک لٹکا لیتے۔ لاکھ کوشش کے باوجود سب لوگوں میں بیٹھ کر میاں کی جھوٹی تعریفوں پر ہمارا اختیار ہی نہیں تھا۔ ان کو دنیا کا سب سے قوی اور زیرک شخص ثابت ہم سے نہیں کیا جاتا تھا۔ کیا کرتے؟ پرفیکٹ بیوی بننے کا خواب محض خواب ہی رہا۔ ہم اپنی حسرتوں ہر آنسو بہا کر سو لئے۔ ہمارے شوہر نامدار کے ارمان بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آخر ان کے بھی کوئی چاؤ تھے۔

اپنے ارد گرد کی خواتین کو دیکھتے تو احساس ہوتا کہ سب اسی منجدھار میں شامل ہیں۔ جس کو تعریفوں کے پل باندھنے پر ملکہ حاصل تھا اس کے پراٹھے کچے رہ جاتے تھے۔ جس کا قورمہ بادامی تھا اس کی ساس اس سے تنگ تھیں۔ یہ معمہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کوئی رول ماڈل ہو تو بڑی آسانی رہتی ہے۔

وقت کی سرشت میں اور کچھ ہو نہ ہو گزرنا لازمی ہے۔ نہ وہ وقت رہا نہ یہ رہے گا۔ ہماری کنفیوژن بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔ اور اندھوں کی کتاب یعنی ٹی وی پر ہماری نظر ایک ایسے شو پر پڑی جس نے ہماری زندگی کو پھر سے نیا زاویہ بخش دیا۔

صبح ساڑھے پانچ اٹھتے ہیں اس لئے رات کے نو بجنے سے پہلے ہی ہم اونگھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پونے نو بجے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑ پٹنا شروع ہوا۔ معلوم ہوا ہماری ساس امی کا بلاوہ آیا ہے کہ فوراً آ کر ٹی وی دیکھو۔ ہائیں؟ لیکن جیسے ہی پیر میں الٹی سیدھی چپل پہن کر لاونج میں پہنچے تو کیا روح پرور منظر دیکھتے ہیں۔ ٹی وی پر خاتون اول بشری بی بی کا انٹرویو لگا ہوا ہے۔ ندیم ملک صاحب کی عقیدت کا وہ عالم دکھائی دے رہا تھا کہ غالبا انٹرویو کے وقفے میں ہی مرید بن چکے ہوں گے۔ انٹرویو میں بسم اللہ اور شروع شریف کی ریکارڈنگ دکھانا ممکن نہ تھا لہذا یہ تذکرہ بھی زبانی ہی ہوا۔

خاتون اول نے جب اپنے مجازی خدا کا نقشہ کھینچا شروع کیا تو ایک لمحے کو تو یہ لگا کہ شاید یہ عالم ارواح کا احوال ہے۔ فرشتوں کی مجلس کا تذکرہ ہے۔ کسی گوشت پوست کے بنے انسان میں تو اتنی خوبیاں ممکن ہی نہیں۔ بقول ان کے خان صاحب میں کسی قسم کا لالچ نہیں۔ سردیوں کے کپڑے گرمیوں میں پہنتے ہیں۔ پیسہ کمانے کا کوئی شوق نہیں کہ یہ کام کوئی اور کرے۔ انہیں بس عطیہ کر دے۔ خدا کی مخلوق کا وہ درد رکھتے ہیں کہ بارش نہ ہونے پر بے جان پودوں کے لئے رو پڑتے ہیں۔ کھانے میں مرغی زیادہ پسند ہے لیکن بالکل سمپل۔ گالوں پر غازہ لگی مرغی انہیں پسند نہیں۔ دنیا میں آج تک ان جیسا لیڈر نہیں آیا۔ قائد اعظم کچھ کچھ ٹھیک بندے تھے لیکن وہ پچھلی صدی کی بات ہے۔ رات گئی بات گئی۔ اب کا دور خان صاحب کا ہے۔

یوں تو عبادت انسان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن خاتون اول نے یہ بات قوم سے چھپانا مناسب نہ سمجھا کہ خان صاحب گھر آ کر کون سے نوافل ادا کرتے ہیں۔ بشری بی بی کی اپنی تمام عمر بھی جائے نماز پر گزری ہے۔ تبدیلی ملک میں تو بعد میں آئے گی پہلے ان کے گھر میں آئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو مل کر خدا اور خدائی کی خدمت دکھاتے رہتے ہیں۔ خان صاحب اور ان کے کتے موٹو نے ہی بیگم صاحب کو یہ بتایا کہ جانور بھی انسان ہوتے ہیں۔ وہ بھی ہرٹ ہو جاتے ہیں۔

دنیا میں کوئی انسان ان پر تنقید کر ہی نہیں سکتا۔ کرنے اور جلنے والے کا منہ کالا۔ اگر کسی نے ان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی تو خان صاحب کا کیا ہے۔ تھوڑے سے کپڑے، بیگم کی ہیرے کی انگوٹھیاں اور موٹو کو گود میں اٹھا کر نکل پڑیں گے۔ مسئلہ آپ بلڈی عوام کو ہی ہو گا۔

کہا جاتا ہے کہ خاتون اول تمام ملک کی خواتین کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ آج محترمہ نے ملک کی تمام بیویوں کو یہ بات بتا دی ہے کہ جنت میں حوروں کی سردار بننے کی حقدار کون بی بی ہے۔ صرف وہی جو شوہر کو اس مسند پر بٹھا دے جو خدا نے اس کےکیے تخلیق ہی نہیں کی۔

بے شک ملک و قوم کے تمام مردوں کو ایسی ہی بیوی درکار ہے جو ان کو پوری دنیا کے سامنے آ کر ولی اللہ اس صفائی سے ثابت کرے کہ سب انگشت بدنداں رہ جائیں۔ اسی میں اس ٹوٹی ہوئی بےراہرو سوسائٹی کی بقا ہے۔
تھوڑا سا مسئلہ ہو گیا ہے۔ یہ انٹرویو ہمارے شوہر نامدار نے بھی دیکھ لیا ہے۔ اب ان کا دل مزید خون کے آنسو روئے گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم سے نہ ہو پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).