وزیراعظم عمران خان کچھ نہ کچھ کرکے دکھاؤ


عجیب صورت حال ہے۔ پانی کا بحران نظر آرہا ہے۔ اس معاملہ پر کچھ عرصہ سے آواز اٹھائی جارہی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد اس خطہ میں پانی کی تقسیم پر کچھ معاہدے بھی ہوئے۔ پاک و ہند کے دونوں ممالک نے پانی کی اہمیت کے مدنظر ڈیم بنانے شروع کیے۔ بھارت نے اپنے دریاؤں پر بڑی منصوبہ بندی سے پانی کاذخیرہ کرنے کے لیے کافی ڈیم بنائے اور پاکستان ان سے لاتعلق ہی رہا۔ سندھ طاس معاہدے کے دونوں فریق ایک دوسرے سے مشاورات کے پابند تھے۔ پاکستان کی انتظامیہ نے بہت ہی لاپروائی کا ثبوت دیا۔ ہمارے ہاں کالاباغ ڈیم پربہت کاغذی کارروائی کی گئی۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور آمریت کے زیرسایہ جو لوگ بھی حکومت کرتے رہے وہ بلاوجہ کالاباغ ڈیم بنانے سے کتراتے رہے۔ صوبہ سرحد اور سندھ کے کچھ سیاسی لوگوں نے مخالفت کی اور سرکار کے لوگ ڈر گئے۔ ان کو اندازہ نہ تھا کہ کالاباغ ڈیم کتنا اہم اورضروری ہے۔

اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد دیگر دوسرے ذرائع کے ذریعہ پانی کے ذخائر کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس معاملہ پر سب لوگ تقریباً متفق ہیں کہ پانی کے ذخیرہ کو مناسب طریقہ سے استعمال کے لیے چھوٹے بڑے ڈیموں کی از ضرورت ہے۔ سابق ملٹری صدر جنرل مشرف نے 2005ءمیں اعلان کیا کہ کالاباغ ڈیم ہماری ضرورت ہے اور وہ ہر حال میں بن کررہے گا۔ صدر مشرف نے جب میاں نوازشریف کی سرکار ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو ایک بڑی وجہ ملک میں بے چینی اور تشویش کا اظہار تھا۔ شروع میں امریکہ جنرل مشرف کی ملٹری سرکار کو خاطر میں نہیں لایا اور تعاون بھی نہیں کیا۔ پھر نائن الیون (جب نیویارک میں دہشت گردی ہوئی) تو امریکہ نے پاکستان سرکار پر توجہ دینی شروع کی۔ جنرل مشرف کی سرکار نے امریکی دوستوں کی مدد کا غیر مشروط فیصلہ کیا اور خوب رقم بھی کمائی۔ وہ ایک علیحدہ دل گیر داستان ہے۔

کالاباغ ڈیم کے بارے میں جنرل مشرف کے اعلان پر صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا سے کچھ ردِعمل بھی سامنے آیا۔ سابق ملٹری صدر مشرف کو اپنی حکمرانی کے لیے سیاسی لوگوں کی آشیرباد درکار تھی۔ اس نے کالاباغ ڈیم کے معاملہ پر سیاسی سودے بازی کی اورکالاباغ ڈیم کے منصوبہ کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا جبکہ اس کو اندازہ اور یقین تھا کہ کالاباغ ڈیم پر اعتراض ذاتی مفادات کے تناظر میں تھے اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت تھی اوراتنا عرصہ گزرنے کے باوجود کالاباغ ڈیم کی اہمیت اور حیثیت مزید بڑھ گئی ہے اوراس معاملہ میں سندھ کی اشرافیہ اور سیاسی لوگوں سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اگرسندھ کے قابل گرفت لوگوں کو معافی کی یقین دہانی مل جائے تو ان کا کالاباغ پر اعتراض بھی ختم ہوسکتا ہے۔

پنجاب کے سابق حکمرانوں نے بھی اپنا کردار بہت منفی رکھا۔ نا اہل سابق وزیراعظم کو کالاباغ کے معاملہ کا سب سے زیادہ معلوم ہے مگر سیاست اور کاروبار کے معاملات نے ان کو بے بس کیے رکھا اور وہ کوئی بھی فیصلہ وقت پر نہ کرسکے جس کا نقصان ان کو نا اہلی کی صورت میں ملا۔ پھر پنجاب کے صوبے دار بہادر شہبازشریف جو بہت اچھی حکومت کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کو بھی کالاباغ ڈیم کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوسکا یا ان کو خوف تھا کہ کالاباغ ڈیم کی وکالت سے وہ کمزور ہوسکتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب بھی کالاباغ ڈیم کے معاملہ پر سچ بولنے سے کتراتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے لیے آپ کو اس وقت وسائل کی کمی نہیں ہے اور بس قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ دوسرے ڈیموں کے لیے کوشش تو ہورہی ہے مگر وہ بھی معاملہ سسُت روی کا شکار ہے۔ سپریم کورٹ نے کچھ کوشش کی ہے مگر اس کو بھی پاکستان کے سیاسی گماشتے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

اب پاکستان میں حکومت اور سرکار تبدیل ہوچکی ہے۔ بنیادی تبدیلی کے لیے وزیراعظم پاکستان کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا۔ اب صوبہ پختونخوا میں ان کی جماعت کا راج ہے۔ کالاباغ ڈیم پر جمہوری اندازِ فکر کے مطابق ان کو رائے عامہ کے حوالے سے مثبت اشارے دینے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے منصوبہ سے صوبہ پختونخوا کا کوئی بڑا نقصان نہیں بلکہ کالاباغ ڈیم کی وجہ سے اس کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرا صوبہ بلوچستان ہے جس کو کوئی اختلاف نہیں۔ صوبہ سندھ کے اہم لوگ کرپشن کے حوالہ سے آج کل خوف زدہ ہیں اور سابق لیڈر حزب اختلاف خورشید شاہ جن کے بارے میں یہ خبر بہت حلقوں میں گردش کررہی ہے کہ انہوں نے سابق نا اہل وزیراعظم نوازشریف سے خاصی معقول رقم بٹوری ہے۔ ان کو اندازہ ہے کہ اس معاملے کا بلاول بھٹو زرداری کو بھی معلوم ہے۔ وہ کالاباغ ڈیم کے معاملہ پر بات چیت کے لیے دستیاب بھی ہیں۔ سندھ کے وڈیروں کی کالاباغ ڈیم مخالفت ذاتی مفادات کے تناظر میں ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان معافی جس کو اس این آر او NRO کہا جاتا ہے اس کا اطلاق کرکے کالاباغ ڈیم کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

اس وقت سابق نا اہل وزیراعظم نوازشریف حالات اور بات چیت کے نتیجہ میں مکمل طور پر غیرموثر ہوچکے ہیں۔ مسلم لیگ کی باگ ڈور اس وقت سابق صوبے دار پنجاب کے ہاتھ میں ہے اور وہ بھی کالاباغ کی اہمیت کو جانتے ہیں اگر ان کے بھائی کے لیے سرکار اور دوست، محفوظ راستہ دے سکیں توکالاباغ پر ان کا بیانیہ مکمل طور پر بدل سکتا ہے اور وہ قومی دھارے کی سیاست میں شریک سفر بھی ہوسکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی زبان کا اعتبار نہیں۔ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی قابل بھروسہ نہیں۔ ان کی سیاست مکمل طور پر غیر جمہوری طرز عمل پر ہے۔ وہ بھی صوبہ پنجاب کے مفادات کے خلاف اپنا کردارادا کررہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو کالاباغ ڈیم بنانے کا موقع مل رہا ہے اور اس کے لیے اس کو بیرون ملک دوستوں سے مشاورت کرنی چاہیے۔ کالا باغ ڈیم کے لیے فوج اپنے وسائل دینے کے لیے مثبت انداز فکر رکھ رہی ہے اور ڈیم بنانے کا ایسا موقع دوبار ہ نہیں ملے گا۔ کالا باغ ڈیم کے لیے اگر ریفرنڈیم کروانا پڑے تو جمہوری طریقہ سے اس پر عمل کیا جائے۔ ڈیم کے لیے کسی قربانی کے لیے قوم کو بتانا اور تیار کرنا ضروری ہے۔ تبدیلی یہ نہیں کہ حکومت مل جائے۔ تبدیلی یہ ہے کہ پاکستان کی حیثیت اور اہمیت بڑھ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).