میجر کے ہاتھوں دھڑن تختہ


پچاسویں دہائی کے وسط کی بات ہے، پاکستان سیٹو کے معاہدے میں شامل ہو گیا تھا۔ سیٹو کی کونسل کے ایک اجلاس میں تمام ممالک کے وزرائے خارجہ شریک تھے جنہیں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا تھی۔ اجلاس کراچی میں اسمبلی کے ہال میں ہونا تھا، میزبان ملک کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے حمید الحق چوہدری کو صدارت کرنا تھی۔

پاکستان وفد کے سربراہ وزیر خزانہ سید امجد علی تھے۔ ان کی مدد وزارت خارجہ اور بڑی فوج، اور نیوی کے نمائندوں نے کرنا تھی۔ اس زمانے میں افغانستان نے حسب روایت مسئلہ بنا رکھا تھا۔ جی ایچ کیو چاہتا تھا کہ اس مسئلہ کو بہت ہی موثر طریق سے اجلاس میں پیش کیا جائے تا کہ امریکی امداد ملنے کا جو فیصلہ ہونا ہے اس کی روشنی میں کیس زوردار طریقے سے پیش کیا جائے تاکہ زیادہ امداد ملے۔ امریکہ کی طرف سے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلّس کو شریک ہوتا تھا۔

اجلاس سے پہلے پاکستانی وفد کا اجلاس ہوا تاکہ ایجنڈا پر کھل کر بات ہو جائے اور جن جن نکات پر زیادہ زور دینا ہے ان کا فیصلہ کر لیا جائے۔ جی ایچ کیو کی نمائندگی ایک جنرل کر رہے تھے جو اپنے خیالات کو بڑے کرو فر اور فاتحانہ انداز میں پیش کرنے کے لئے خاصے مشہور تھے۔ انہوں نے شمال مغرب کے اس خطرے کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کی اور کہا کہ جب کونسل کے اجلاس میں اس مسئلہ پر بات کرنے کا وقت آئے تو امجد علی انہیں بلا کر معاملہ پیش کرنے کے لئے کہیں۔ امجد علی نہ اسے مناسب سمجھتے تھے نہ یہ بات مروجہ طریق کے مطابق تھی۔

امجد علی نے کہا کہ یہ ذمہ داری ان کی ہے، وہ موثر طریق سے معاملہ پیش کر دیں گے اور اگر ضروری ہوا تو وزارت دفاع کی طرف سے فراہم کیے گئے کوائف بھی پیش کر دیں گے۔ جرنیل صاحب پر امجد صاحب کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بہت نا خوش نظر آتے تھے۔ لیکن ملک میں ابھی سول حکومت تھی اور اگرچہ فوج نے ادھر ادھر پیر پھیلانے شروع کر دیے تھے مگر وہ اپنا ڈنکا نہیں بجا سکتی تھی۔

اجلاس سے تھوڑی دیر پہلے جرنیل صاحب نے پھر امجد علی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ گنجائش نکالیں مگر امجد علی اکڑ گئے۔ جرنیل صاحب نے سوچا کہ اگر سیٹو میں شامل ممالک کی سلامتی کے معاملات اور پاکستان کو درپیش خطرے کے بارے میں انہیں بات ہی نہیں کرنی تو پھر اجلاس میں شرکت سے کیا فائدہ، جرنیل صاحب نے امجد علی کو قائل کرنے کے لئے مزید کوشش نہیں کی اور کونسل کا اجلاس شروع ہو گیا، جس میں تقریریں کیں، اجلاس معمول کے مطابق چلتا رہا تا آنکہ پاکستان کی باری آ گئی۔

سپیکر کی اونچی کرسی پر براجمان حمید الحق چودھری نے پاکستانی وفد کے لیڈر کو تقریر کی دعوت دی۔ امجد علی نے کچھ دیر علاقے کے عام مسائل کے بار ے میں زبانی تقریر کی اور پھر کہا کہ اب میں شمال مغرب کی طرف سے پاکستان کو درپیش فوجی خطرے پر روشنی ڈالوں گا۔ امجد علی نے بمشکل یہ لفظ ادا کیے تھے کہ حمید الحق چودھری کے عقب سے ایک خوفناک تیوروں والا میجر پیرا ٹروپر آگے لپکا اور ایک دم ایک بہت بڑا نقشہ کچھ اس طرح سے پھیلایا کہ حمید الحق چودھری اس کے پیچھے چھپ گئے میجر نے ایڑیاں ٹکرائیں اور کونسل کے اجلاس سے مخاطب ہوا۔ ”جنٹلمین اب میں آپ کو افغان خطرہ سے آشنا کراؤں گا۔

امجد علی نے حیرت سے جنرل صاحب کے کان میں کہا۔ ” یہ کیا ہے؟ “ ان کے پاس بیٹھے تھے کہنے لگے ” مجھے کیا پتہ؟ میں بھی آپ کی طرح حیران ہوں، چلیں دیکھیں وہ کیا کہتا ہے۔ “ دریں اثنا میجر نے فوجی اصطلاحات اور لفاظی کے دریا بہا دیے تھے۔ میجر نے علاقے، آب و ہوا، پہاڑوں کی بلندی، دریاؤں کی روانی، دروں، مواصلات اور سرحد کے آر پار موجود فوجوں کے بارے میں وضاحت شروع کر دی، میجر کا انداز بڑے زور کا تھا اور لگتا تھا کہ اب اسے بولنے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ اور یہ کی اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ اسے بولنے دیا جائے۔ اس کی آواز اتنی پاٹ دار تھی کہ اگر حمید الحق چودھری یا امجد علی کچھ بولتے بھی تو وہ اس کی آواز میں دب جاتا۔

اس تقریر کے دوران حمید الحق چودھری نقشے کے پیچھے غائب تھے اور شرکا کی نظروں سے اوجھل۔ سیٹو کے وزرائے خارجہ بھی حیرت میں امجد علی کویوں دیکھ رہے تھے گویا پوچھ رہے ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ امجد علی نے ایک بار پھر میجر کو روکنے کی کو شش کی، جنرل سے کہا کہ میجر کو روک لیں مگر جنرل صاحب بولے۔ ”میں نے اسے بولنے کے لئے نہیں کہا تو اب روک کیسے سکتا ہوں۔ “ امجد علی اپنی کرسی میں دھنس گئے اور جب تک میجر نے اپنا خطبہ مکمل نہیں کر لیا وہ خالی نگاہوں سے چھت کو گھورتے رہے۔

سیٹو کے وزرائے خارجہ نے شاید یہ سوچا ہو کہ اجلاس میں فوجیوں کی اچانک مداخلت فوج کی طرف سے پاکستانی سیاست میں وارد ہونے کی پیش دستی تو نہیں۔ اگر انہوں نے واقعی یہ سوچا تو کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے کیونکہ اس واقعہ کے اڑھائی سال بعد فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ایک جرنیل نے ملکی معاملات اپنے ہاتھ لے لئے۔

ائیر مارشل ر اصغر خان کی کتاب “یہ باتیں حاکم لوگوں کی” سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).