بے نظیر اور نواز شریف کے پیر کاکی تاڑ کون تھے؟


نوشابہ سے ملاقات ہوئے ابھی چند ہی گزرے تھے کہ ایسوسی ایٹڈ پریس ٹیلی ویثرن، امریکہ نے وہ آئیڈیا منظور کر لیا جو میں نے بازار حسن پر ایک دستاویزی فلم بنانے کے سلسلے میں کئی ہفتے پہلے ای میل کیا تھا۔ میں ان دونوں ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ، جو دنیا کا ایک بہت معتبر خبررساں ہے، کا پاکستان میں نمائندہ تھا اور میری جیوریسڈکشن پنجاب تھی۔ ایسوسی اینڈ پریس ٹیلی وثیرن اسی امریکی نیوز ایجنسی کا ایک ذیلی ادارہ تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس ٹیلی وثیرن (APTV) کے پر وڈیوسر دلشاد خان کیمرے اور دیگر سازو سامان کے ساتھ، جو فلم بنانے کے لئے درکار تھا، ایک دن لاہور پہنچے۔ ہم دونوں کی منزل بازار حسن تھا، جہاں ہمیں ایک ایسے شخص کا بھی انٹرویو کرنا تھا جسے پیر کاکی تاڑ کہتے ہیں۔

ویسے ان کا نام صفدر شاہ بخاری تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ موسیقی (دھمال) کے ذریعے ہر قسم کے مرض کا علاج کر سکتے ہیں۔ میر ا تجسّس فلم میں کم اور کتاب کے لئے مواد اکھٹا کرنے میں زیادہ تھا۔ پیر کاکی تاڑ کے ساتھ ملاقات کے لئے 8 بجے کا وقت طے تھا۔ بازار حسن پہنچے تو کوٹھوں کے دروازے اور کھڑکیاں ابھی نہیں کھلی تھیں۔ جبکہ بازار میں آنے جانے والوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔ بازار حسن میں یہ میرا تیسرا Visit تھا لیکن تیسرے Visit پر ہی میرے اعصاب نارمل ہو چکے تھے۔ اگرچہ ایک عجیب سا خوف دل میں موجود تھا، لیکن صور تحال پہلے دن جیسی نہ تھی۔

گاڑی پیر کاکی تاڑ کے آستانے کے سامنے ایک مزار کے قریب پارک کرنے کے بعد ہمارے قدم بڑے اعتماد سے اپنی منزل کی جانب اٹھنے لگے اور ہم نے اس مزار کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا جہاں اپنے زمانے کی ایک مشہور بزرگ ہستی حضرت سید قاسم شاہؒ دفن ہیں۔ حضرت قاسم شاہؒ کے بار میں کہا جاتا ہے کہ وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں مشہد سے پہنچے اور انہوں نے اپنا ٹھکانہ لاہور کے شاہی قلعہ کے نزدیک واقعہ ایک ٹیلے کو بنایا۔ کسی زمانے میں شاہی قلعہ کی بیرونی دیوار کے سامنے دریائے کا کنارہ تھا۔

پرانی تصاویر میں جہاں کہیں قلعہ کی منظرکشی کی گئی ہے وہیں پر حسین و جمیل عورتوں کو دریا کے کنارے بیٹھا ہو ا بھی دکھایا گیا ہے۔ یہ خواتین کو ن تھیں اس کے بارے میں تاریخ میں وضاحت موجود نہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ ان کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ نہ تھا، کیونکہ شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی مستورات کو پردے کی سختی سے پابندی کرنا پڑتی تھی۔ غالباً قلعہ کی دیوار کے سامنے راوی کے کنارے اٹھکھیلیاں کرنے والی یہ خواتین تھیں جن کی شاہی دربار تک رسائی تھی۔ تا ہم حضرت سید قاسم شاہؒ نے جب قلعہ کی عقبی دیوار سے کچھ فاصلے پر ڈیرہ لگایا تو اس وقت دریائے راوی کا کنارہ قلعہ کی دیوار سے دور ہٹتے ہٹتے کافی دور جا چکا تھا۔

حضرت سید قاسم شاہؒ کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا تھا۔ ان کے صاجنرادے کا نام حضرت میرن شاہ تھا۔ انہی کے خاندان کے ایک فرد علامہ میر حسن سیالکوٹی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ علامہ اقبال کے استاد تھے۔ اور علامہ اقبال کبھی کبھار بازار حسن گانا کے لئے جایا کرتے تھے۔ جس ٹیلے پر حضرت سید قاسم شاہؒ نے قیام کیا تھا وہ بعد ازاں ٹبی کے نام سے مشہور ہوا۔ ٹبی بظاہر ٹبہ کی بدلی ہوئی شکل ہے اور یہ وہی علاقہ ہے جو شاہی قلعہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بازار حسن کی گلیوں اور بلند و بالا عمارتوں میں دن اداس اور راتیں خوشگوار ہوتی ہیں۔ ان عمارتوں کو وقت کے ظالم تھپیڑ وں نے اگرچہ خستہ حال کر دیا ہے لیکن ا ن پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کے مکین عیش کی زندگی بسر کرتے رہے ہوں گے۔

قدیم دور کی یہ عمارتیں آج بھی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں اور وہ چیخ چیخ کر کہتی ہیں، ” دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہوں۔ “ پیر کاکی تاڑ کے آستانے کا دروازہ ایسی ہی ایک پرانی طرز کی عمارت میں کھلتا تھا۔ ہماری آمد سے پہلے ہی پیر صاحب ڈھنڈورا پیٹ چکے تھے۔ کہ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ٹیم ان کا انٹرویو کرنے کے لئے آ رہی ہے۔ آستانے میں ڈرتے ڈرتے میں نے اور دلشاد خاں نے قدم رکھا تو ناک سے بدبودار ہوا کا جھونکا ٹکرایا۔ چونکہ شاہی محلے کی رونقیں جوان ہونے میں ابھی کافی وقت باقی تھا اس لئے آستانے میں داخل ہوتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہاں ظلمتوں کے ڈیرے ہوں۔ وہ گھر جسے پیر کاکی تاڑ آستانے کا نام دے رہے تھے چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشمتل تھا اور اس بات کا اندازہ نجوبی لگایا جا سکتا تھا کہ یہاں تیسرے درجے کے افراد تسکین حاصل کرنے کے لئے آتے ہوں گے۔

گھر کے کسی کمرے میں کوئی چیز ترتیب سے نہیں پڑی تھی۔ بوسیدہ دیواروں کو چند تصاویر سے چھپانے کی کوشش کی کئی تھی جب کہ فرش پر گندی سی چادر پڑی تھی۔ میں حیران تھا کہ تعفن زدہ اس ماحول میں کوئی کیسے Enjoy کرتا ہو گا لیکن آنے والے دنوں میں پتہ چلا کہ گھروں کے یہ کمرے تو محض کمائی کے اڈے ہیں وگرنہ زیادہ طوائفوں کی رہائش گاہیں تو فیشن ایبل علاقوں میں واقع ہیں۔

پیر کاکی تاڑ کے مرید ہمیں بڑے عزت و احترام سے نسبتاً ایک صاف ستھرے کمرے میں لے گئے جہاں پہلی بار پیر صاحب کے درشن ہوئے۔ پیر کاکی تاڑ سے اس سے قبل میری شناسائی اخبارات میں شائع ہونے والی ان تصویووں، خبروں اور ایک ملاقات تک محدود تھی۔ انہیں دیکھ کر بے ساختہ خدا کی قدرت یاد آئی۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی شیطان کو انسانی روپ میں اتارا تو اس کی شکل پیر کاکی تاڑ سے ملتی ہو گی۔ میں نے کسی کی کہی ہوئی وہ بات یاد آتے ہی پیر صاحب کی طرف دیکھا۔ نجانے ان کے چہرے کے خد و خال کی کرامت تھی کہ میری نظر کا دھوکہ، مجھے یوں لگا یہ شخص وہ نہیں جو ظاہر کر رہا ہے۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ ابھی ہمیں ڈھیروں کام کرنا تھا اور قدم قدم پر ہمیں ایسے شخص کی ضرورت تھی جو طوائف کے کمرے تک دن کی روشنی میں ہمارے لئے رسائی کا باعث بن سکے۔

پیر کاکی تاڑ نے متحرم ترین ہستیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ” جس کسی نے بھی اپنے دور میں مروجہ اصولوں سے ہٹ کر بات کی اسے کافر اور شیطان کہا گیا اور حکمران وقت نے کبھی انہیں پابند سلاسل کیا اور کبھی وہ گردن زدنی۔ اس لئے اگر کوئی مجھے فراڈیا کہتا ہے تو اس کا کوئی قصور نہیں۔ ہم تو وہ ہیں جو ہزاروں برس کے بعد دنیا میں آتے ہیں اور علم کی روشنی پھیلاتے ہیں۔ آپ دیکھیں مجدد الف ثانیؒ، سقراط اور شاہ شمس تبریز ؒ کے ساتھی کیا ہوا۔ خود ہمارے رسول کو کس کس مصیبت کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ لیکن ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اللہ کے خاص بندے جب کبھی کسی خاص کام پر مامورکیے جاتے ہیں تو انہیں زمانے کی سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ جس سکالر کی زندگی میں اس کے فلسفہ کو نہ مانا گیا لیکن بعد از موت اس غیر فطری موت سے ہمکنار کرنے والے پچھتاوؤں کے سمندر میں غرق ہو گئے۔

میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک عظیم مشن کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھجوایا ہے۔ لوگ مجھ پر آوازیں کستے ہیں، کوئی مجھے فراڈیا کہتا ہے کہ میں بد کرداری اور جسم فروشی کو فروغ دے رہا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوں۔ میری منزل بہت دور ہے۔ ممکن ہے کہ میں زندگی میں اپنی محنت کا ثمر وصول نہ کر سکوں لیکن آپ لوگ نوجوان ہیں، میری آپ سے گذارش ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق یہ دستاویزی فلم مکمل کریں۔ کسی قسم کی مصلحت سے کام نہ لیں، کیونکہ مصلحتوں کی وجہ سے تو ہمارا ملک ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن ایک کام ضرور کیجئے گا کہ اس فلم کی ایک کاپی وڈیوکیسٹ پر محفوظ کر کے مجھے ارسال کر دیجئے گا۔ میری کوشش ہوگی کہ یہ وڈیو کیسٹ پورے ملک میں پھیلا دی جائے اور جو شخص میرے کلینک تک نہیں آسکتا وہ وڈیو کے ذریعے دھمال دیکھ لے“۔

ہم نے پیر کاکی تاڑ کی طویل گفتگو کو بڑے صبر اور تحمل سے اور چند سوالاتکیے جن میں سرفہرست یہ تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ فراڈ ہیں! پیر صاحب نے خلاف توقع سوال بڑے غور اور سنجیدگی سنا اور کہنے لگے کہ جو کہتا ہے اسے کہنے دو، اپنی نیت ٹھیک رکھو، اپنا کام ایمانداری سے کرو باقی رہ گئے نتائج۔ تو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3