کیا عدالت برگر سستا کرنے کا حکم دے سکتی ہے؟


اسکول فیس کی بڑھوتی سے متعلق عدالتی نوٹس بلا تفریق ہر اسکول کو موصول ہو ئے ہیں، جس کی وجہ سے اسکول مالکان ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔ سب اسکول کاروبار نہیں کرتے، کاروبار کرنے والے اسکولوں کو پہچاننا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ فیس کم ہے یا زیادہ اس کے عوض اسکول جو کچھ طلبہ کو دے رہے ہیں۔ کیا وہ تعلیم اور تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔

کیا عدالت نے کبھی ان اسکولوں کی حالتِ زار کا نوٹس لیا ہے جہاں بچوں کی فیس ایک ہزار سے تین ہزار ہے ، لیکن ان اسکولوں میں بنیادی ضروریات مثلاً کینٹین میں معیاری چیزیں ، باتھ روم ، پانی اور اچھے اساتذہ کا بھی فقدان ہے جہاں ایک ہیڈ مسٹریس کی تنخواہ دس ہزار اور ٹیچرز کی تین ہزار سے پانچ ہزار ہوتی ہے۔ ایسے تما م اسکولوں میں غریب، ان پڑھ والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول جان کر ذوق و شوق سے داخل کر دیتے ہیں۔ بچوں کے داخلوں کے ساتھ اسکول کی منزلوں اورکمروں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے۔ اس طرح کے اسکولوں کے لالچی مالکان کو نہ تو ٹیچرز کی حالتِ زار کی پروا ہے نہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ امتحانات میں تمام بچوں کا بلا تفریق اگلی جماعت میں جانا لازمی ہو تا ہے۔ والدین بچوں کی کارکردگی سے بے پروا اسکول کی انتظامیہ سے ایسے ہی خوش نظر آتے ہیں جیسے ہمارے عوام نجی معاملات میں عدالت کی مداخلت سے خوش نظر آتے ہیں۔

چیف جسٹس صاحب اگر واقعی بڑھتی ہوئی فیس عوام پر بوجھ سمجھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ دو بہنوں کے مشہور اسکولوں کے معائنے کے لیے اپنی ٹیم بھیجیں۔ اسکول کے نام کی مقبولیت سے مرعوب والدین حقیقتاً اپنی کمائی یوں لٹاتے ہیں کہ یہاں بچے کے لیے اسکول میں زیادہ سے زیادہ غیر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے بعد شام کو ٹیو شن یا کوچنگ ناگزیر ہو جا تا ہے۔ عدالت کو صرف ایسے ہی اسکولوں پر فوکس کرنا چاہیے جہاں واقعی اسکولوں کی فیس زیادہ اور اس اعتبار سے اساتذہ کی تنخواہیں اور بچوں کو ملنے والی سہولیا ت کم ہیں۔

اصل میں ا حتجاج ان ہی مشہور اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسوں پر شروع ہوا تھا۔ یہ دو بہنیں تو اپنی ہنڈیا چوراہے پر پھوڑ چکی ہیں لیکن ہمارے متمول بھائیوں کی جیب نہیں چھوڑی۔ اسٹیٹس کے خفقان میں مبتلا خواتین کے لیے اپنے ملنے والوں میں، اپنے بچوں کے اسکول کا نام لے کر بھرم قائم رکھنا ان کی زندگی اور صحت کے لیے جیسے طبیب کا کوئی نسخہ ہے۔ یو ر آنر! ن کی صبح کی جاگنگ اور شام کی واک کے دوران کیے گئے احتجاج کو آپ نے اتنا سیریس لے لیا؟ اس احتجاج کو ہوا دینے کے لیے ہماری این جی اوز بھی اس لیے سر گرمِ عمل ہو ئی تھیں کہ اس کی بنیاد پر ان کی تنظیم کے قائم رہنے کے جواز میں ایک تصویر کا اضافہ ہو جائے۔

اور ایسے میں وہ والدین بھی امید سے ہو گئے جہاں بچے پہلے ہی نہایت کم فیس میں کم تنخواہ والی استانی سے اس کی محرومیوں کے عوض روز کا ایک تھپڑ، بے مزا ہوئے بغیر مفت کھاتے ہیں۔

معیاری تعلیم دینے والے کچھ اسکول ہیں جو حد بھر فیس لیتے ہیں ، مگر اس کے بدلے بچوں کو بہترین اسا تذہ ، ماحول اور تعلیم دیتے ہیں۔ ایسے اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین پر معاشی بحران آئے تو فیس آدھی کر دیتے ہیں یا بالکل نہیں لیتے۔ ذہین اور اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے طلبا ادارے کا اثاثہ ہو تے ہیں ، انہیں وظیفہ دیا جاتا ہے۔ اساتذہ کے بچوں کے لیے خصوصی رعایت ہو تی ہے ایسے اسکولوں کی اچھی پڑھائی اور ماحول کی شہرت سن کر اپنے بچے داخل کرانے والدین خود آتے ہیں۔ کوئی انہیں مجبور نہیں کرتا ، اسی طرح کو ئی اپنے بچے کانام اسکول سے خارج کروانا چاہے تب بھی اسے اسکول میں پڑھا نے پر اصرار نہیں کیا جا تا۔

میرا بچہ بھی ایسے ہی ایک اسکول میں پڑھتا ہے وہاں دس ہزار سے زیادہ کسی بچے کی فیس نہیں۔ اور اس اسکول کی کارکرد گی سے والدین بھی بالکل مطمعن ہیں، عدالت کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کے نجی معاملات میں مدا خلت کر کے اسکون برباد کرے۔ اگراسکول ہر سال بچوں کی فیس میں معمولی اضافہ نہ کریں تو اساتذہ کا سالانہ انکریمنٹ کیسے ہو گا ، ہر سال بجلی کے بلوں میں جو اضافہ کیا جا تا ہے اسے کیسے پورا کیا جائے گا ، ہر سال بڑھتی ہوئی مہنگائی کا تدارک کیسے کیا جا ئے گا۔ چیف جسٹس کو چاہیے کہ زمینی حقائق سامنے رکھ کر اقدامات کریں۔

کیا عدالت کسی گاہک کے احتجاج پر فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹ کو بھی نوٹس بھیج سکتی ہے کہ اپنا برگر سستا کرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).