حکومتی ٹوپی ڈرامے اور عوامی مسائل


عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتیں سنبھالے 40 دن سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک عوام اچھی خبر سننے کے لئے ترس رہے ہیں۔

نئے پاکستان میں عوام کو آنکھ کھولتے ہی پہلے تں خواہ دار طبقے پر لگائے جانے والے ٹیکس کی شرح میں اضافے اور پھر گیس کی قیمتوں میں کیے جانے والے اضافے کی خبریں سننے کو ملیں۔ جس کے بعد اب سننے میں آیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ قریب ہے۔ جبکہ شنید یہ بھی ہے کہ اگلے ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ زیر غور ہے۔

دوسری طرف پہلے 40 دنوں میں عمران خان نے کفائیت شعاری مہم اپناتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کو میڈیا یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا اور سرکاری ناکارہ ہیلی کوپٹرز، وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں اور بھینسوں کو فروخت پر لگا دیا ہے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے پروٹوکول نالینے کے جھوٹے دعوے بھی آئے روز سامنے آتے ہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان تمام حکومتی اقدامات سے عوام کو فائدہ کیا ہوا ہے۔ کیا یہ تمام اقدامات عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے حکومتی ٹوپی ڈرامے ہیں؟

انتخابات میں عوام نے تو تبدیلی کے نام پر 1 کروڑ 68 لاکھ سے زائد ووٹ عمران خان کو دے کر منتخب کیا۔ بدلے میں عمران خان کی طرف سے کفائیت شعاری، ناکارہ ہیلی کوپٹرز اور بھینسوں کی فروخت جیسی حکومتی ٹوپی ڈرامے ہی دیکھنے کو ملے۔ عوام کو ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا۔

70 سالوں سے ستائے عوام نئے پاکستان میں امید لگائے بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت وعدے کے مطابق 50 لاکھ گھر اور 1 کروڑ نوکریاں دے گی۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرے گی۔ لیکن عوام کو ملا کیا۔ ٹِھینگا۔ 40 دنوں سے زیادہ گزر گئے عمران خان کو وزیراعظم بنے ہوئے۔ حکومت صرف اعلان پر اعلان، اعلان پر اعلان ہیکیے جارہی ہے۔ ریلیف کوئی نہیں دے رہی۔

وزیراطلاعات چوہدری فواد نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان کے 60 سالوں میں لئے گئے قرضے 6 ٹریلین روپے کے تھے۔ جو کہ بڑھ کر 2013 میں 13 ٹریلین روپے ہوگئے۔ جبکہ 2018 میں یہ قرضے 28 ٹریلین روپوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج کل تحریک انصاف میں شامل فواد چوہدری اور ان کی حکومت کو یہ حقائق پہلے معلوم نہیں تھے۔ کیا معیشت کے گرو مانے جانے والے اسد عمر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان پر کتنا قرضہ واجب الادا ہے؟ گردشی قرضے کتنے ہیں؟ درآمدات اور برآمدات میں کتنا فرق ہے؟ عمران خان کو یہ بتایا نہیں گیا تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت انتہائی ناگفتہ بے ہے۔ لہزا سوچ سمجھ کر 50 لاکھ گھر بنانے اور 1 کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کریں۔

ہم پاکستانی تو اس امید میں تھے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم جو کہ 22 سالوں سے سیاسی جدوجہد میں لگی ہے۔ اپنا ہوم ورک مکمل کرچکی ہوگی اور اس ٹیم کے پاس پاکستان کے مسائل کا حل ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ سابق حکمرانوں کی طرح عمران خان کرپٹ نہیں ہیں۔ لہزا وہ ملک کی خاطر کچھ کر دکھائیں گے۔ لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ عمران خان اور ان کے درجنوں وزیر اور مشیر حکومت سنبھالتے ہی یہ رونا پٹنا شروع کردیں گے کہ پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔ جس کے لئے مزید قرضے درکار ہوں گے اور جن کا بوجھ پھر سے پہلے سے پسے عوام پر ڈالا جائے گا۔ جس نے تبدیلی کی خاطر عمران خان کو وزیراعظم منتخب کیا تھا۔

ہمیں کیا معلوم تھا کہ عمران خان بھی سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرح حکومت سنبھالتے ہی اپنے قریبی عزیزوں کو نوازیں گے اور پاکستان کے برے حالات کو ٹھیک کرنے کے لئے سارا بوجھ اسی عوام پر ڈالیں گے جس نے عمران خان کو منتخب کیا ہے۔

عمران خان نے سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران مطالبہ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو 90 دنوں تک کچھ نا کہا جائے۔ عمران خان اور ان کی حکومت نوے دن میں سب کچھ سنبھال لے گی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت جو 40 دنوں میں صرف اعلانات ہی کرسکی۔ وہ بقیہ 50 دنوں میں کونسا پہاڑ ڈھا لے گی۔ پاکستانی خزانے کا جو حال ہے۔ وہ ان 90 دنوں میں تو ٹھیک ہونے والا نہیں۔ لہزا عمران خان کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنے 40 دنوں پر نطر ثانی کریں۔ ورنہ یہ نا ہو کہ 90 دنوں کے بعد بھی عمران خان اعلانات ہی کررہے ہوں اور عوام تب تک 25 جولائی کوکیے گئے فیصلے پر پچھتانے لگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).