خواب میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ دیکھی


انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی دینے کے بعد اجکل سب جگہوں پر جنگ کی باتیں دیکھنے کو مل رہی ہیں، کوئی اخبار میں انڈیا کے خلاف بیان دے کر خود کو سچا پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی بندوق کے ساتھ ویڈیو بنا کر انڈیا کو للکارتا ہے کہ ہمت ہے تومقابلہ کرکے دکھاؤ، انڈیا کے طرف سے بھی ایسی ویڈیوز ٹویٹس او پوسٹ کا جواب ویڈیوز کے ذریعے مل رہا ہے، وہاں تو کوئی لاہور میں چائے پانی کرنے کے لئے ترس رہے ہیں تو کوئی پشاور میں چرسی تکہ کھانے کو۔ فیسبوک اور ٹویٹر پر سارا دن یہی سب کچھ دیکھ کر رات کو جنگ کے شوقین دونوں ممالک کے افراد کے لئے میں نے عجب وغریب خواب دیکھا جو کو میں لکھنے جا رہا ہوں۔

خواب دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے، دونوں اطراف سے زمینی، فضائی اور سمندری فوجیں ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہو چکی ہیں، دونوں اطراف سے جنگی جہاز شہروں اور دیہات پر آگ برسا رہے ہیں، زمینی فوجیں ایک دوسرے کے شہروں میں داخل ہوچکی ہیں، گلیوں میں راکٹ، بم، گرنیڈ اور تباہ کن اسلحہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے، گلیوں میں ہر طرف فوجیوں سے زیادہ عام عوام کی لاشیں پڑی ہیں، ہماری جانباز فوجیں واہگہ کے ذریعے امرتسر، جلندھر، ہریانہ چندی گڑھ اور اترپردیش تک نکل چکی ہیں اور وہاں ہمارا برابر کا بدلہ لے رہی ہیں۔ انڈیا کے خلاف ہم پاکستانی عوام کا کلیجہ ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ انڈیا افواج بھی مدھیہ پردیش، گجرات راجستان اور ہیماچل پردیش کے راستے بدین، نواب شاہ، بہاولپور اور سرینگر کے ذریعے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گھس کر پشاور پہنچنے کے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر ہم اپنے ایمان پاکستان کے جذبے سے سرشار ان کا رخ پھیر رہے ہیں۔ انڈین افواج کی واپسی کی مزاحمت میں اب ہم کافی نقصان بھی اٹھا چکے ہیں، مگر یہ ایک دو بڑے ملکوں کے درمیان ایک عالمی سطحح پر جنگ چھڑ چکی ہے اس لیے ہم کو بھی نقصان اٹھانا تو پڑے گا ہی۔

خواب دیکھ رہا ہوں کہ دونوں اطراف سے شہر کے شہر اجڑ گئے ہیں بلکل کابل، برلن، حمص، دمشق کے طرح۔ انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ہر نظام رک گیا ہے، بجلی کا نظام تباہ، پانی کا نظام تباہ، اشیا خوردنوش ناپید، ادویات کا فقدان، سڑکوں کو جیٹ طیاروں کے ذریعے مٹا دیے گئے ہیں۔ انڈیا کے ورناسی سے کنیا کماری تک کا ہائی وے، دہلی سے دکن تک کا ہائی وے، گجرات سے کلکتہ تک کا ہائی وے کے تباہی کے ساتھ اپنے پاکستان کا بھی ایک ہائی وے نہیں بچا ہے، اسلام آباد سے لاہور، پشاور فیصل آباد، کراچی حیدرباد سکھر سب کا زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ہزار سال پیچھے کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔

عجیب وغریب خواب دیکھ رہا ہوں کے نظام درہم برہم ہوگیا ہے، سڑکوں اور گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں، گھروں، پلازوں اور بلڈنگوں کے ملبوں میں انسانوں کی لاشیں دبی ہوئی ہیں، ہسپتالوں میں زخمی درد اور کرب سے چلارہے ہیں، ہوائی شیلنگ میں ڈاکٹر خود بھی مارے گئے ہیں جس سے ہسپتالوں میں مریضوں کی تھوڑی بہت مد د کے لئے بھی کوئی نہیں مل رہا، اور اگر ہے بھی تو ہسپتالوں میں سر درد کی گولی تک باقی نہیں بھچی ہے۔ میں کسی کا ہاتھ کسی کا کٹا پاؤں دیکھ ان کی بے بسی پر نیم پاگل سا ہوگیا ہوں، ان لوگوں کا جنگ کا شوق اتنا جلدی ختم ہوتے ہوئے دیکھ کر عجیب بھی لگ رہا ہے۔

اب بھی گہری نیند میں ہوں اور خواب وہی طرح دیکھ رہا ہوں اپنے ملک کے وہی لیڈرز کو دیکھ رہا ہوں جن کو انڈیا کے خلاف لڑنے کا بہت شوق تھا، انہوں نے اپنے گینگ بنا رکھے ہیں، سوریا، یمن اور افغانستان کے باغیوں کے طرز پر خانہ جنگی کا ماحول بنا رہے ہیں اور ساتھ میں ملکی خزانہ بینکوں اور کمپنیوں کو لوٹ رہے ہیں، جنگ اور ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں کے وجہ سے دونوں ملکو٘ میں قانون نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی ہے، ایک ایک روٹی اور ایک گلاس پانی کے لئے عوام ترس رہے ہیں، جنگی طیاروں سے بمباری کے وجہ سے چشموں اور تالابوں کا پانی بارود اور کمیکل سے زہر الود ہو چکا ہے۔ دونوں ملکوں کی جنگ اب رک گئی ہے مگر ہر گھر سے پانچ پانچ جنازے نکل چکے ہیں، ہر گھر میں کسی کا پیر کٹ گیا ہے کسی کا ہاتھ۔ اب اپنے ملک شہر کا نظام اسکول ہسپتال گھر وہی نظام ٹھیک کرنے میں سو سال کا عرصہ تو لگے گا۔

اچانک وحشت بھرے خواب سے آنکھ کھل گئی اور خود کو ایک نرم بستر پر پایا، امن اور سکون سے پایا، اپنے شہر گاؤں کو صحی سلامت پایا، اسکول مدرسہ، مسجد ہسپتال کو اپنے جگہ پر پایا اور شکر ادا کیا۔

کسی زمانے میں ہم پاکستانیوں کے طرح دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کو بھی لڑنے کا بہت شوق تھا، پہلے اور دوسری جنگی عظیم کی صورت میں ان کی آرزو بھی پوری ہو گئی، جنگ چھڑ گئی، لاکھوں لوگ مارے گئے، شہر کے شہر برباد ہوگئے، سڑکوں سے لاشیں اٹھانے والا تک کوئی نہیں تھا، گدھ اور دیگر مردار خور پرندے انسانی لاشوں کو نوچ نوچ کر کھاتے رہے، پھر بچے کھچے انسانوں کو سمجھ آئی کہ جنگ کیا ہوتی ہے، اور جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔

اقوام متحدہ جیسی تنظیم بھی جنگوں کے روک تھام، ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ مسائل کو افہام وتفہیم اور سیاسی طریقے سے حل کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ ہمیں جنگ لڑنے کے لئے خوش ہونے سے پہلے کسی شامی، عراقی، افغان یا یمن کے باسی کے ساتھ بیٹھ کر پوچھنا چاہیے کہ جنگ کیا ہوتی ہے، اگر کسی کو خوش فہمی ہو کہ ہمارے طرف سے فوجی لڑے گا مگر کیا وہ فوجی ایک انسان نہیں ہے؟ کیا فوج میں کوئی خود اس لیے خواہ مخواہ بھرتی ہوتا ہے کہ گولی کھاکر مرجائے؟

ہم کو اپنے عالمی مسائل عالمی فورم پر سیاسی ذریعے سے حل کرنے چاہئیں، تمام ممالک کے عوام کو اس دنیا میں ایک فیملی کے طرح رہنا چاہیے، انسانوں کا ایک دوسرے کو احترام اولین تقاضا ہے۔ پھر بھی اگر کسی سیاسی یا مذہبی رہنما کو انڈیا کے خلاف جنگ لڑنی ہے تو پہلے اپنے بچوں کو فوجیوں سے آ گے بارڈر پر بھیجے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).