محکمہ صحت کا انتظام و انصرام اور ڈاکٹر وزیر صحت


ہمارے یہاں یہ مطالبہ عام ہے کہ محکمہ صحت کا منتظم (یا وزیر) کسی ڈاکٹر کو ہونا چاہیے، بلکہ یہ بات محکمہ صحت تک ہی محمدود نہیں ہے۔ مطالبہ یہ بھی ہے کہ کرکٹ بورڈ کا چئرمین کرکٹر ہونا چاہیے۔ اس سلسے میں ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کے وزیر صحت بننے پر کچھ لوگوں، خاص طور پر ڈاکٹروں نے بہت شادیانے بجائے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مریض کو جب اپنی کسی طبی مشکل کی وجہ سے صحت کے کسی بھی ادارے کا رخ کرنا پڑتا ہے، تو اُسکا واسطہ ڈاکٹر سے پڑتا ہے۔ وہی اُسکی تشخیص کرتا ہے، وہی دوا تجویز کرتا ہے، اور اگر علاج سے افاقہ نہ ہو تو اگلا لائحہ عمل بھی ایک ڈاکٹر ہی تجویز کرتا ہے۔

یعنی ڈاکٹر نظام صحت کا چہرہ ہے اور ڈاکٹروں سمیت بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ہی اس نظام کے روح رواں ہیں، اور اس نظام کو اُن سے بہتر کوئی نہیں سجھ سکتا۔ حالانکہ اس سارے عمل میں ڈاکٹر کے پیچھے ایک پورا نظام ہے، جس کا بندوبست ڈاکٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس لئے کیا وہ پورے نظام صحت کی سمجھ بھی رکھتا ہے اور کیا وہ اسے چلانے کے لئے بہترین آدمی ہے، اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں صحت کے پورے نظام کو سمجھنا ہوگا۔

ایک عام آدمی چونکہ اپنے مرض کے علاج ہی کے لئے طبی ادارے کا رُخ کرتا ہے، اس لیے سب سے پہلے اسی شعبے کی طرف آتے ہیں۔ یہاں سب سے اہم شخص ڈاکٹر دکھائی دیتا ہے، جس کا کام مرض کی تشخیص کرنا اور اُسکے بعد اُسکا علاج تجویز کرنا ہے۔ یہ وہی کام ہے جس کی ڈاکٹر کو تربیت ملی ہوتی ہے اور جسے وہ سب سے بہتر کرنا جانتا ہے۔ اگر مرض معمولی اور عام فہم ہو، اور دوا مریض نے اپنی جیب سے خریدنا ہو تو مسئلہ یہیں پر ختم ہو سکتا ہے، لیکن مرض اگر پیچیدہ ہے، تو معاملہ پھیل جاتا ہے۔ تشخیص کے لئے ٹیسٹوں، ایکسرے، ای سی جی وغیرہ کی ضرورت ہو سکتی ہے اور اگر ان تمام چیزوں سے بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو زیادہ سینئر ڈاکٹروں بلکہ دوسرے طبی شعبوں کو شامل کرنے کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

جب اتنے سارے شعبے اس معاملے میں شامل ہوں گے ، تو ان تمام شعبوں کو ایک دوسرے سے رابطے میں رکھنے کا ایک مربوط نظام چاہیے۔ اس کے باوجود، اور ہر شعبے میں مریض کو ایک علیحدہ قطار میں لگنا پڑے گا۔ چلئے مریض کی تشخیص ہو گئی اور دوا تجویز کر دی گئی۔ اب مریض کو دواؤں اور دوسرے علاج کے طریقوں کی دستیابی کا معاملہ درپیش ہو گا۔ اگر اُس کی جیب میں پیسہ ہے تو ساید اُسے یہ چیزین آسانی سے میسر ہو جائیں، لیکن اگر غریب آدمی ہے، تو دیکھنا پڑے گا کہ کونسی دوائیں ہسپتال فارمیسی میں دستیاب ہیں اور کون سی نہیں، اور جو دستیاب نہیں اُن کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔

اس کے لئے فارمیسی مینیجمنٹ کی بھی ضرورت ہو گی اور مالی منتظم کی بھی جس کے بارے میں ڈاکٹر کُچھ نہیں جانتا۔ یہی نہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جو دوائیں دستیاب ہیں کیا وہ مطلوبہ معیار کی ہیں نہیں۔ اس کام میں بھی ڈاکٹر کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ دوائیں میسر آ گئیں تو اُنہیں استعمال کیسے کرنا ہے، اس کے لئے ڈسپینسر بلکہ ہیلتھ ایجو کیٹر کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن یہ معاملات تو ایک آؤٹ ڈور مریض کے ہیں۔

اگر مریض ہسپتال میں داخل ہے تو نرسوں، بیروں اور صفائی کے عملے کا انتظام و انصرام بھی اپنی جگہ پر ایک الگ معاملہ ہے۔ یہ کام بھی ڈاکٹر کی پیشہ وارانہ تربیت میں شامل نہیں ہے۔ ہسپتال میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں، اُن کی ڈیوٹیاں لگانا، اُن کے ہوسٹل اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنا، اور کوئی چھٹی پر چلا گیا تو اُسکا بدل تلاش کرنا۔ یہ سب کام ڈاکٹر کے نہیں بلکہ ایک منتظم کے ہیں۔ اسکےلئے افرادی قوت کے انتطام میں ماہر کی ضرورت ہو گی، مالی معاملات کے ماہر چاہیے ہوں گے ۔

ایک ہسپتال میں عموماً جتنے بستر ہوتے ہیں، اُس سے لگ بھگ دو سے تین گُنا آؤٹ ڈور مریض آتے ہیں، اور ہر مریض کے ساتھ کئی لوگ ہسپتال آتے ہیں۔ اس لیے ہسپتال میں روزانہ آنے والون کی تعداد بستروں کی تعداد سے دس گُنا تک ہو سکتی ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو پریشان، اور چڑچراہت کا شکار ہیں۔ اُن کے لئے سہولیات فراہم کرنا، اور ان کی تکلیفیں کم کرنے کی کوشش کرنا، یہ سب کام ڈاکٹر کے کرنے کے نہیں ہیں۔ یہ انتطام اگر کسی ڈاکٹر کے حوالے کردیا جائے، تو شاید ایک آدھ شعبے میں وہ بہت اچھا ثابت ہو لیکن زیادہ تر شعبوں کے لئے اُسے انتظامی ماہرین کے مددگار چاہیے ہوں گے ۔ اس کے برعکس ایک ایسا شخص جس کی تعلیم و تربیت ہی ایک منتظم کے طور پر ہوئی ہو، وہ چند شعبوں میں ڈاکٹر کی مدد سے اس نظام کو شاید بہتر طریقے سے چلا سکتا ہے۔ پوری دُنیا میں اب ہیلتھ کئر مینیجر کی تعالیم الگ سے ہوتی ہے جس کے لئے ڈاکٹر ہونا لازمی نہیں ہوتا۔

یہ معاملہ تو صرف ایک اوسط درجے کے ہسپتال کا تھا۔ جب بات محکمہ صحت کے انتطام کی آئے گی تو بات اور پیچیدہ ہو گی۔ آپ کو گاؤن کی ایک ڈسپینسری سےلے کر ایک بہترین ٹیچنگ ہسپتال تک ہر درجے کے طبی اداروں کا انتطام چلانا ہے، آپ کو دواؤں کی صنعت، دواؤں کی کوالٹی اور تجارت کے معاملات دیکھنے ہیں، عطائیت کی روک تھام کرنی ہے، آپ کو ڈاکٹروں، نرسوں، ڈسپینسروں، فارماسسٹ کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہے۔ حفاظتی صحت کا نظام چلانا ہے، اور ان سب چیزوں کو اپنے محدود وسائل کے اندر مینیج کرنا ہے۔

مختلف درجے کے لاکھوں ملازمین کی دیکھ بھال بھی کرنا ہے۔ تو ایک ڈاکٹر کو ان سب شعبوں میں انتظامی ماہرین پر کتنی فوقیت ہو گی؟ ڈاکٹر یاسمیں راشد گائینی کی اُستاد اور پروفیسر رہی ہیں۔ وہ شایہ گائینی کی وارڈ کا انتطام بہت اچھا چلا لیں، ڈاکٹروں کی تعلیم میں بھی اُنہیں مہارت ہو گی، اور ڈاکٹروں کے مسائل کا بھی کُچھ فہم ہو گا، لیکن باقی معاملات میں وہ ایک عام مینیجر سے شاید کمتر ثابت ہوں۔ اس لحاظ سے میں ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کے آنے سے نطام صحت میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔ اس شعبے میں بہتری کے لئے مستقل بنیادوں پر انتطامی اصلاحات کی ضرورت ہے، جن پر کسی اور کالم میں عرض کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).