لفافہ صحافی اور نظریاتی ورکرز (۱)۔


میرے گزشتہ کالم”نواز شریف کو یہ ریلیف مہنگا پڑے گا“ پر جتنی مجھے تنقیداور گالیاں سننی پڑیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نون لیگی کارکنوں نے تو انتہا کر دی بلکہ یہاں تک کہہ ڈالا کہ میں تحریک انصاف کا لفافہ صحافی ہوں اور اسی وجہ سے ان کی طرفداری کرتا ہوں۔ اگرچہ اس سے قبل بھی کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے اس طرح کے الزامات برداشت کرنے پڑے مگر اس دفعہ معاملہ کافی مختلف تھا۔ لفافہ صحافی، ان پڑھ صحافی، سیاسی حوالے سے نابلد صحافی اور کئی ایسے الزامات میری ای میل پر موجود ہیں جو شدت پسند نون لیگی کارکنوں کی طرف سے موصول ہوئے جسے تفصیل سے بیان کرنے کے لیے ایک الگ کالم درکار ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ الزامات دینے والوں میں میرے کئی وہ قریبی دوست اور قاری بھی شامل ہیں جو اس وقت مجھے محبِ وطن کہتے تھے جن دنوں میں عمران خان کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا اور آج جب میں نواز شریف سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کا کہہ رہا ہوں تو میں لفافہ صحافی بھی بن گیا اور ان پڑھ اورجاہل بھی۔ یعنی میرا صحافتی کیرئیر اسی صورت میں شاندار اور کامیاب ٹھہر سکتا ہے جب میں مسلم لیگ نون کی مدح سرائی کرتا رہوں اور انہیں چور کہنے کی بجائے قوم کا حقیقی ہیرو بناکر پیش کرتا رہوں۔

مجھے خوب یاد ہے کہ گزشتہ ماہ میرے کالم”فیصلہ اب عمران خان کے ہاتھ میں ہے“ کی اشاعت پر میرے نون لیگی (جو خود کو نظریاتی ورکرز کہتے ہیں) دوستوں کا ہی کہنا تھا کہ کالم اس قدر جاندار اور غیر جانبدار ہے کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ اس کالم میں عمران خان پر تنقید تھی لہٰذا نون لیگی دوستو ں نے تعریفوں کے پل بنا دیے۔ اس سے نون لیگی کارکنوں کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر میں ان کے حق میں لکھوں تو میرے لیے یہ نوبل پرائز کا اعلان تک کروا دیں اور اگر ان کے خلاف کوئی لفظ لکھ بیٹھا تو یہ مجھے رشوت خور، کرپٹ اور نہ جانے کیا کیا کہہ ڈالیں گے۔ مجھے یہ سارے الزامات اور گالیاں سن کر اس لیے بھی حیرت نہیں ہوئی کہ میں جانتا ہوں میرے سمیت ہراس صحافی کو یہ الزامات اور گالیاں سننی پڑ رہی ہیں جو کسی بھی جماعت کی غلطیوں پر بات کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کچھ دن پہلے ہمارے سینئر دوست سلیم صافی کو تحریک انصاف کے دوستوں نے دھر لیا اور اس قدر گھٹیا طریقے سے ان کا مذاق اڑایا گیا، جو بیان سے باہر ہے۔

میں نے اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ ہم سیاسی وابستگیوں اور ذاتی تعلق کی بنیاد پہ اس قدر جذباتی کیوں ہو جاتے ہیں کہ عزت و احترام کی تمام حدیں کراس کر جاتے ہیں۔ ہم سیاسی تعلق داری میں اس حد تک اندھے ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنا لیڈر مومن اور دوسرا کافر لگنے لگتا ہے۔ اگر آپ تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں تو عمران خان محبِ وطن اور نواز شریف غدار ہیں اور اگر آپ نون لیگی ہے تو یہ معاملہ الٹ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر آپ ایم کیو ایم سے ہیں تو باقی تمام جماعتوں کے رہنما کرپٹ اور چور ہیں اور آپ کے رہنما سچے، کھرے اور ایماندار ہیں۔

میں نے کہیں لکھا تھا کہ ” انتہا پسندی نے ملکِ پاکستان کو چاروں طرف سے بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس تعصب اور تشدد یا انتہا پسندی کا شکار زیادہ تر وہ قومیں ہیں جو تمدنی اور سیاسی اعتبار سے بانجھ پن کا شکار ہیں یعنی جن میں تعلیم اور ترقی کا فقدان ہے“ اور افسوس کہ پاکستان میں یہ دونوں مسائل موجود ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اس درجہ انتہا پسند اور جذباتی ہو چکے ہیں کہ ہمیں سیاسی سپورٹ میں ہر وہ صحافی لفافہ خور اور کرپٹ لگتا ہے جو ہماری جماعت کی کرپشن اور چوری پہ بات کرتا ہے۔ میں نے حالیہ جنرل الیکشن سے ایک ماہ قبل کالم ”نظریاتی ہٹ دھرمی“ لکھا تھا جس میں بھی پاکستا ن میں موجود شدت پسند طبقوں اور افراد کی اقسام کا جائزہ لیا تھا، اس کالم پر بھی اگرچہ مجھے سخت تنقیدی سننا پڑی مگر یہ سچ ہے کہ ہم لوگ اندھے ہو چکے ہیں۔

مثلا اس کی ایک تازہ مثال دیکھیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک ایسا واقعہ تھا جس کے بارے میں کسی بھی طرح کا کوئی شک و شبہ باقی نہیں۔ ہر ذی شعور یہ بات جانتا ہے کہ اس ظلمِ عظیم میں کسی نہ کسی حوالے سے حکومتِ وقت ضرورشامل تھی اور جو لوگ وہاں بے دردی سے مارے گئے ان کو انصاف بھی ملنا چاہیے۔ کل جب عدالت نے شہباز شریف اینڈ کمپنی کو کلین چٹ دی تو میرے نون لیگی دوستوں نے اس پر بھی جشن منایا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوامی تحریک کے مظلوموں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ مگر پھر بھی نون لیگی اس بات پر پورے جوش و خروش سے نعرے بازی کر تے رہے کہ چھوٹے میاں صاحب بھی پارسا نکلے۔

اب تو نو ن لیگی کارکنان کو نون لیگ بالکل بھی چھوڑنی چاہیے کیونکہ دونوں بھائیوں کو عدالت نے صاف شفاف ہونے کی کلین چٹ دے دی لہٰذا اس وقت نون لیگ سے زیادہ کوئی اور جماعت محبِ وطن نہیں ہو سکتی۔ کل جب عوامی تحریک کے سیکرٹری اطلاعات سے تفصیلی بات کے بعد علامہ طاہر القادری سے ملاقات اور کالم لکھنے کا سوچا تو سب سے پہلا جو خیال ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ اب اگر عوامی تحریک کی حمایت میں لکھوں گا تو کیا میں علامہ طاہر القادری کا لفافہ صحافی کہلاؤں گا یا پھر ان مظلوموں کا رشوت خور کہلاؤں گا جنہیں انصاف نہیں مل سکا۔ سیاسی جماعتوں نے یہ ہماری کیسی پرورش کر دی ہے، ہماری ذہنیت اتنی عجیب کیوں ہو چکی ہے کہ ہم سیاسی تعلق میں گالیوں اور بکواسیات کے علاوہ کچھ سوچتے ہی نہیں۔ ہم کسی نہ کسی طرح ہر اس صحافی کو گالی دیتے ہیں، اس کی سوشل میڈیا پر تذلیل کرتے ہیں جو ہماری پارٹی اور جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا۔

سیاسی جماعتوں میں ہم مذہبی فرقہ واریت سے بھی کہیں آگے نکل گئے۔ پہلے تو یہ لگتا تھا کہ صرف مذہبی تفرقے بازی میں ملوث لوگ ہی اتنے جذباتی اور شدت پسند ہوتے ہیں مگر سیاسی کارکنوں (نظریاتی ورکرز)نے تو حد کر دی۔ کافر، کافر والی گردان اب سیاسی کارکن غدار، غدار کی صورت میں پڑھنے لگے، جو صحافی ان کی رائے سے اختلاف کرے گا وہ غدار، کرپٹ اور لفافہ خور ہو گا لہٰذا صحافیوں کو کلین چٹ وہ سیاسی ورکرز دیں گے جن کا نہ تو کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی کمٹمنٹ۔ یعنی میں ہزاروں ایسے کارکنوں کو جانتا ہوں جنہوں نے پچھلے دس سالوں میں کئی جماعتیں بدلیں اور ہر جماعت میں جانے کے بعد سابقہ جماعت کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ اس کے وکرز کو جاہل اور گنوار بھی کہا اور خود کو پکا نظریاتی ووٹرز۔ ہر جماعت بدلتے ان کا یہ ہی نعرہ ہوتا تھا کہ وہ ایک کرپٹ پارٹی چھوڑ کر محب وطن جماعت میں جا رہے ہیں اور پتا تب چلتا جب اگلے سال وہ پارٹی بھی کرپٹ ہوتی اور یہ لوگ تیسری جماعت کا رخ کر تے ہوئے نعرہ لگا رہے ہوتے کہ ”اب ہم پکے نظریاتی ہو گئے“ ۔

اب ایسے ورکز آج ہم صحافیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم صحافی صرف اس جماعت کے ساتھ ہوتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے۔ میں آج ببانگِ دہل اعلان کرتا ہوں کہ آج میں تحریک انصاف کے ساتھ ہوں کیونکہ مجھے اس سے قوی امید ہے اور اگر کل کلاں میری امیدوں کو اگر تحریک انصاف نے بھی توڑا تو خدا رامیں کبھی اندھے اور جاہل نظریاتی ورکرز کی طرح عمران خان اور تحریک انصاف کی غلطیوں کو سپورٹ نہیں کروں گا۔ سو اب بھی اگر کوئی مجھے لفافہ صحافی سمجھتا ہوں تو میں کہتا ہوں کہ میں ہوں لفافہ صحافی، جو ہوتا ہے میرا کر لیں۔ میں آپ کا نہیں، اپنے خدا اور اپنے ضمیر کا جواب دہ ہوں۔
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).