انڈس ڈیلٹا کو جینے دو


ڈیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کا فرمان جاری ہو چکا ہے اور طرف ڈیموں کی طرف میلی آنکھ اٹھانی والے کو غدار سمجھا جائے گا کا ڈر خوف صوبہ سندھ اور بلوچستان سمیت کہیں نہیں آ رہا لوگ چندا دینے سے انکاری نظر آ رہے۔ ایک طرف دریا سندھ پر کالا باغ ڈیم بنانے کی کو کوشش کی جار ہی مگر سندھ کے لوگ تو بھاشا سمیت کسی بھی ڈیم کو سندھو دریا پر بننے نہیں دینے کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ڈیم کی کہانی کو سمجھنے کے لیے جب میں نے انڈس ڈیلٹا ایکسپرٹ کیٹی بندر کے ندیم ملاح سے پوچھا تو انہوں نے بتایہ کہ پہلے سے ہی انڈس ڈیلٹا بد حالی کا شکار ہو کر مرنے کو ہے اور اگر کوئی بڑے ڈیم اس پر تعمیر ہوئے تو دریا سمجھو مر جائے سندھ مر جائے گا اور مزید ڈیمز کی تعمیر انڈس ڈیلٹا کے لاکھوں لوگوں کی زندگی سے کھلواڑ ہوگا۔

انڈس ڈیلٹا کو دنیا بھر کے ڈیلٹاؤں میں نمایاں مقام حاصل ہے جموں کشمیر کے علاقے لداخ سے اپنا سفر شروع کرنے والا دریائے سندھ تین ہزار کلو میٹر کی مسافت طے کرتا ہوا دامن میں ریت و معدنیات سمیٹتا ہوا سمندر میں گرتا ہے اور جہاں پر سندھو دریا اپنی ریت چھوڑتا ہے وہاں پر ہی ڈیلٹا بنتا ہے اس وقت انڈس ڈیلٹا دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا ہے۔ جسے ہم اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں۔

انڈس ڈیلٹا 52900 چورس مربعہ کلومیٹر پر مشتمل ہے، ڈیلٹا پر موجود تمر کے جنگلات سمندر کا سیف گارڈ ہیں اور سمندری طوفانوں کے آگے ڈھال بن کر کام کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نوازشریف نے تمر کے جنگلات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم سمندر کو تمر کے جنگلات کی باڑ دیں گے کیونکہ ڈیلٹا سمندر کی لنگس کی طرح کام کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو سمندرکی ستر فیصد مچھلیوں کی افزائش اور دوسری آبی حیات کی خوراک کے لیے انڈس ڈیلٹا ایک ماں ہے کیوںکہ گھرے سمندر میں آبی حیات کے لیے افزائش اور خوراک کا حصول اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ڈیلٹا میں ہوتا ہے۔ ہم بلوچستان کے سمندری کی مثال لے سکتے ہیں کہ وہاں پر مچھلیوں کی تعداد اس لیے کم ہے کیوںکہ وہاں نہ ہی ڈیلٹا ہے نہ ہی تمر کے جنگلات۔ مقامی اور مہمان پرندوں کے لیے انڈس ڈیلٹا محبوب ترین مقام ہے پرندے تمر کے درختوں پر گھونسلہ بنا کر سمندر کی ہواؤں میں لہراتے نظر آتے ہیں۔

اس خوشحال انڈس ڈیلٹا کی قسمت خراب تب ہونا شروع ہوئی جب 1960 میں جنرل ایوب خان نے سندھ کو اعتماد میں لیے بغیرسندھ طاس معاہدے کے تحت صرف 8 کروڑ رقم کے بلدے پاکستان کے تین دریا بھارت کو بیچ دیے اور دریا سندھ کے اوپر بیراج بنا کر پانی کو تقسیم کیا گیا اور نتیجے میں ٹھٹہ اور بدین کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کے نظر ہو گئی۔ س وقت سمندر میں دریا سندھ کا میٹھا ریتلا پانی نہ جانے کی وجہ سے تمر کے جنگلات ختم ہو رہے ہیں سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا جس کے باعث انڈس ڈیلٹا کی زندگی مفلوج ہوتی ہوئی ںظر آ رہی ہے۔ ملاح بیروزگار ہیں ہیں جانور مر رہے ہیں۔ فشر فوک فورم کے سربراہ محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ دریا کا پانی سمندر میں نہ گرنے کی وجہ ہزاروں لوگ کاشت کاری چھوڑ کر ماہی گیری کی طرف آ گئے ہیں آئے مگر پانی میں مچھلی ہی موجود نہیں۔ ماحولیاتی ماہر ناصر پنھور کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا کے علاقے میں میٹھے پانی کی گیارہ جھیلیں تھیں جو سمندر کے آگے بڑھنے کی وجہ سے وہ تمام جھیلیں آج کھارے پانی کے تالابوں میں تبدیل ہو گئیں ہیں۔ کبھی تو انڈس ڈیلٹا کے خطے میں پیداوار کی شرح سندھ بھر میں سب سے زیادہ تھی مگر آج وہ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔

کبھی تو سکندر اعظم دریائے سندھ کی موج مستی کے سحر میں گم ہو گیا تھا۔ کسی زمانے میں تو دریا سندھ انڈس ڈیلٹا پر بڑا مہربان تھا اور کھلی دل سے فیاضی کرتا تھا لیکن گزرشتہ پانچ سالوں سے ڈیلٹا پانی کو دیکھنے کے لیے ترس رہا ہے اور ماحولیاتی ماہرین اور مقامی افراد کا خیال ہے کہ انڈس ڈیلٹا کو شاد اور آباد رکھنے کے لیے کم از کم 35 ملین ایکڑ فیٹ پانی جانا چاہے۔ 1991 کے واٹر معاہدے کے تحت وفاق اور صوبے سندھ میں یہ طے پایا تھا کہ 10 ملین ایکڑ فیٹ پانی سمندر میں چھوڑا جائے گا لیکن اس پر بھی کئی سالوں سے عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اور الٹا بغیر ماہرانہ رائے اور زمینی حقائق جانے بغیر یہ کہا جاتا ہے کہ سمندر میں پانی ضایع ہو رہا ہے۔ ماہر اور محقق ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق بڑے بڑے ڈیم کی تعمیر ایک غیر جمہوری اور سرمایہ دارانہ قوتون کی سازش جب کہ پانی کی مینیجمنٹ ٹھیک کر کے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کی کمی دور کی جا سکتا ہے۔ اس لیے خدارا انڈس ڈیلٹا کی زمینی اور آبی زندگیوں کو جینے دو کیونکہ اس میں ہی ہماری بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).