جب ولدیت کے خانے میں لکھا نام مشکوک ہو گا


سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ان افراد کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور دے دی گئ ہو جو چوکیداری کے بھی لائق نہ ہوں، جی ہاں بھارتی عدلیہ دیوانے پن کا شکار ہوچکی ہیں، کچھ دن قبل دفعہ 377 کو جو ہم جنس پرستی کے قانون سے متعلق ہے جرم کے دائرے سے باہر کر دیا گیا ہے، جو انسانی معاشرے کی تباہی کا سبب ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز دفعہ 497 بھی ختم کر دی گئی، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت غیر ازدواجی جنسی تعلقات قائم کرنا چاہے تو وہ جرم نہیں ہوگا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کے سپریم کورٹ زنا کو قانوناً جائز قرار دے رہی ہے، حکومت مسلم خواتین کو انصاف دلانے کیلئے طلاق ثلاثہ کو نشانہ بنا چکی ہے اور عجیب و غریب قانون آرڈیننس لا کر پاس کیا گیا، حکومت میں موجود سنگھی حکمران مسلمانوں کے چار شادیوں پر پابندی عائد کرنے پر زور دے رہے ہیں، ہر وقت فضا میں زہر گھول رہے ہیں، جو مسلمان ایک سے زائد خواتین کو عزت و اکرام کے ساتھ نکاح کرکے اپناتے ہیں اور انہیں سماج میں باوقار زندگی گزارنے کا ذریعہ بنتے ہیں ان سے حکومت کو تکلیف ہورہی ہے، جہاں خواتین اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہیں، ایسے لوگوں سے حکومت کو پریشانی ہورہی ہیں،اور حکومت خواتین کو آزادی و انصاف کے نام پر ایک ایسے ذلت آمیز زندگی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں ان کی قیمت کسی پروڈکٹ کے سوا کچھ نہیں ہوگ۔

حکومت نے غیر ازدواجی جنسی تعلقات کا قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے، جس کے ذریعے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مغربی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جارہی ہیں، اسکے پیچھے بہت سارے راز چھپے ہیں، اگر موجودہ حکومت یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہے تو سب سے پہلے اسکی مخالفت میں مسلمان آواز اٹھائیں گے، کیونکہ مسلمان شریعت اسلامی پر عمل کرتے ہیں، اس طرح سے وہ یہ قدم نہ اٹھاتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے معاشرے سے متعلق ایسے پہلوؤں کو نشانے بنا رہی ہے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اسکی لپیٹ میں مسلمان بھی آئیں گے جسکا مقصد مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بنانا ہیں جسکی وجہ سے مسلم معاشرے کو درہم برہم کر دیا جائے،تہذیب و ثقافت کو منصوبہ بند طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے سماج میں بے راہ روی کو فروغ مل سکے اور اخلاقی قدریں دم توڑ دیں، حالانکہ مسلمانوں کو ایسے قانون سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، کیونکہ مسلمان ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہے کہ جس نے خواتین کو ذلت و پستی کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر معاشرے میں بلند مرتبہ و مقام عطا کیا۔ مرد کو اس کا محافظ بنا کر بھیجا اگر وہ بیٹی ہے تو باپ کو اسکا محافظ بنایا ، اگر وہ بیوی ہے تو شوہر کو اس کا محافظ بنایا، اور اس کی تمام ضروریات زندگی کو اپنی حیثیت کے مطابق پورا کرنے کی ذمے داری دی گئی۔ اگر سپریم کورٹ اس‌ قانون پر نظر ثانی نہیں کرتی ہے تو یہ قانون ملک کی تہذیب و ثقافت اور معاشرے کو تباہ کردے گا، اور مرد و خواتین کو آزادی کے نام پر ایسے قانون فراہم کردینا جسے کوئی بھی مذہب جأیز قرار نہیں دیتا، تو اس ملک کی خواتین کی حالت ان مغربی ممالک کی خواتین کی طرح ہوگی جن کی اوقات ایک ٹشو پیپر کے سوا کچھ نہیں ہے، اگر یہ قانون پر پابندی عائد نہیں کی گئی تو معاشرہ کی حالت یہ ہوگی کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہوکر رہ جاے گا، اور یہ وہ دور ہوگا جب ولدیت کے خاکے میں لکھا ہوا نام بھی مشکوک ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).