میں بھی ہوں آپ کے قبیلے سے


دیار غیر میں رہنے کے نقصانات بہت زیادہ ہیں مگر ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ دھیرے دھیرے ان بہت سے پوشیدہ حقائق سے واقف ہونے لگ جاتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے وطن عزیز میں ایک عمر ناکافی ہے۔ ہماری تربیت اور پرورش بھی ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے کہ بہت سے سوالات کا گلا کمسنی میں ہی گھونٹ دیا جاتا ہے۔ جیسے مجھے سارا مطالعہ پاکستان پڑھ کر کبھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ سینتالیس میں وہ قوم جو ایک مذہب کے نام پر عدم سے وجود میں آئی تھی، اس میں اتنی نفرت کہاں سے درآئی کہ اکژیت ساتھ رہنے سے ہی منکر ہو گئی۔

اسی طرح ذہن اکثر کچھ ایسے سوالات کے جوابات کا متلاشی رہا، سوچوں کے بے لگام گھوڑے بھٹکتے رہتے تھے، پر غم روزگارمیں ایسے پھنسے کہ وقت ہی نا ملا تاوقتیکہ بسلسلۂ روزگار ہی امریکہ آنے کا اتفاق ہوا۔ پہلے تو یہاں آنا اور پھر شومئی قسمت دشمن ملک کے شہریوں کے ساتھ نہ صرف کام کرنا پڑا بلکہ کچھ عرصہ ان کے ہمراہ رہنے کا بھی موقعہ ملا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ انکشافات کا سلسلہ ہی چل نکلا، وہ چیزیں سمجھ آنے لگ گیں جو ویسے کبھی نہیں آنا تھیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی سمجھ آ گئیں جو کہ ایک اچھی اور سادہ زندگی گزرنے کے لئے تو بالکل بھی نہیں آنا چاہئیں تھیں، پر اب کیا کیا جائے، سر پر کمسنی میں کنٹوپ چڑھانا تو آسان ہے، پر کسی وجہ سے اگر اتر جائے، تو پھربڑی عمر میں دوبارہ چڑھانا کوئی ایسا آسان نہیں، سر پھنس جاتا ہے یا کنٹوپ ٹوٹ جاتا ہے۔

خیر خاکسار نے یہاں قدم رنجہ تب فرمائے تھے جب تبدیلی کے نام پراوباما نیا امریکہ بنانے کے چکر میں تشریف لائے تھے، نیا امریکہ تو کیا ہی بننا تھا، بش سے پہلے والے پر ہی دوبارہ کچھ رنگ روغن کر گئے، جو کہ ہم جیسوں کے لئے نو گیارہ کے بعد غنیمت ہی تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں تبدیلی کی لہریں چل نکلیں، کہیں عرب بہار کے نام پر تو کہیں عنوان لوٹ مار کے خلاف بغاوت کے نام پر، لیکن یہ پتا چلا کہ واقعی گلوبل ویلج یا عالمی گاؤں ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اب ان حالات سے بھی تھوڑا فاسٹ فارورڈ کریں تو پڑوسی ملک میں اس بار آ گئی مودی سرکار اور پڑوسیوں کا سارا سیکولرازم بذریعہ ناک رسنے لگ گیا۔ فہمیدہ ریاض نے کیا ہی خوبصورت نظم کہی ہے

تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی

اس سے بھی بڑی حیرت ہوئی جب مودی کے شدید دیوانے ووٹرز سے تفصیلی بات چیت کرنا شروع کی، کام تو مشکل تھا، پر اپنے مطلب کے ووٹر ڈھونڈھ ہی نکالے اور ہندوتوا اور گھر واپسی جیسے معاملات پر ان کے نادر خیالات سے آگاہی بھی ہوئی اور تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کو ملا۔ نتیجہ یہی نکالا کہ صاحب یہاں دال، دلیل اور استدلال کا کوئی فائدہ نہیں، منطق یہی کہتی ہے کہ منطق کی ان جگہوں پر موت واقع ہو چکی ہے، ایسے میں عزت پیاری ہو تو پتلی گلی کا راستہ ناپنے میں ہی عافیت ہے۔

ابھی روشن اور چمکدار بھارت کے سیکولرازم کی لرزتی شمع کے نظارے میں مقید تھے کہ یکایک ریاست ہائے متحدہ میں ٹرمپ کی آمد سے چار سو ہائے ہائے ہونے لگ گئی، مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناتے ٹرمپ کے ووٹر ڈھونڈنے میں زیادہ دقت اس لیے در پیش نہیں ہوئی کہ اب شکاری شکار کی تلاش میں تھے اور پچھلا سبق اب ان کی زبانی دوہرایا جا رہا تھا۔ جلد ہی انکشاف ہوا کہ بھارت میں مودی کا جو ووٹر ہے، اسی کے سامی رشتہ دار یہاں ٹرمپ کے ووٹر ہیں۔ نعرے بدلے ہیں پر سوچ وہی ہے۔ آدم حوا سے چلتی آئی نسل انسانی کا ایسا پریکٹیکل یہاں آئے بنا کیسے مل سکتا تھا۔

دو سال اور آگے آ جائیے تو کچھ یوں ہوا کہ اسی قبیل کے لوگ اپنے گھر میں نظر آنے لگ گئے، وہی ہائپر نیشنلزم کی باتیں، جو نازی ازم سے ایسے جا ملتی ہوں کہ جدا کرنا مشکل ہو جائے۔ وہی دیوانے جن کی بصیرت ٹنل وژن کی تائید کرتی ہو، وہی سوچ وہی باتیں جن سے پاکستان بھی نیا نظر آنے لگ گیا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ دال، دلیل اور استدلال یہاں بھی نہیں چلتے نظر آتے کہ مودی کے دیوانوں کا تقریباً وہی ورژن ٹرمپ کے دیوانوں میں نظر آتا ہے، جو کہ خان کے دیوانوں میں پایا جاتا ہے۔

سچ، جھوٹ، حقیقت سبھی گتھم گتھا ہیں، ہر میڈیا ہاؤس کا اپنا اپنا سچ ہے، جو ممکن ہے سفید جھوٹ ہو، اب تو ممکن ہے جلد ہی سفید اور گرے /سرمئی سچ بھی دریافت کرنا پڑ جائیں، کیونکہ سادہ والا سچ تو وہ ہوا جو آپ کے لیڈر ارشاد فرمائیں اور میڈیا ہاوٰس اس کی تصدیق کرے، سرمئی جو آپ کے دو وزرا فرما رہے ہوں اور ابھی عیاں نہ ہو پا رہا ہو کس پر دونوں آنکھیں بند کر کے یقین کرنا ہے اور کس پر کانی آنکھ جگائے رکھنی ہے۔

بہرحال بچپن کے سیکھے علوم سے چاہے اعتبار اٹھ گیا، مگر آدم کی نسل پر ایمان مزید بڑھ گیا۔ دلیل اور منطق تو کب کی منطقی موت مر چکیں، یقین نہ آئے تو آزمائش شرط ہے۔ اپنی لوکیشن کے اعتبار سے کسی بھی تینوں عظیم قائدین کے چاہنے والوں میں کسی سے بحث چھیڑ کر تو دیکھیں، ایک اور قدر مشترک بھی عیاں ہو جائے گی یعنی طرزِ سخن۔ بقول شاعر بے مثل، رفیع رضا

مَیں بھی ہُوں آپ کے قبیلے سے
میرا طرزِ سُخن بھی گندا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).