چلتے پھرتے خود کش بمبار


کل جنوبی پنجاب کے پسماندہ شہرمظفر گڑھ کے ایک قصبہ چوک قریشی میں سکول وین کو آگ لگ گئی۔ سکول وین میں سوار 24 بچوں میں سے تین موقع پر ہی لقمہ اجل کا شکار ہو گئے اور باقی بچے ادھ جلی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ جن میں سے تین بچوں کی حالت بہت نازک بتائی جا رہی ہے۔

خدا معلوم ان والدین کے دلوں پہ کیا گزری ہو گی؟ جن کے بچے اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمارا درد ناقابل بیان ہے۔ جب بھی کسی معصوم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوتا ہے تو ہمارا دل سکڑ کے مٹھی میں آ جاتا ہے۔ مائیں کس محبت سے بچوں کو سکول بھیجتی ہیں اور کس شدت سے ان کی واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ ہر صاحب اولاد ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔

کون جانتا تھا کہ صبح ہنستے کھیلتے سکول جانے والے پھول واپسی پہ “بھن“ کر آئیں گے؟ ابھی تو پشاور آرمی پبلک سکول کا واقعہ ذہن سے محو نہیں ہوا تھاکہ ایک نیا دلخراش واقعہ رونما ہو گیا۔ بظاہر ان دونوں واقعات میں کوئی مماثلت نظر نہیں آتی لیکن درپردہ حقائق ایک جیسے ہی ہیں۔ وہاں بھی خود کش حملہ گلشن اجاڑ گیا، یہاں بھی ”چلتے پھرتے بمبار“ نے کئی گھروں میں صف ماتم بچھا دی۔

نجانے یہ قانون کس ذی ہوش نے لاگو کیا کہ اچھی بھلی پٹرول سے چلتی گاڑیوں میں سی این جی سلنڈر لگوا دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا جال پبلک ٹرانسپورٹ سے گھریلو صارفین تک پھیل گیا۔ ذرا سے مالی مفاد کے لئے قیمتی جانوں کو گروی رکھ دیا گیا۔ جتنے سمجھدار پاکستانی عوام ہیں اتنے ہی قابل ہمارے حکمران۔ کبھی کسی نے اس سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ کہ جو گاڑی پٹرول پہ چلتی تھی یکایک گیس پہ کیوں آگئی؟

شروع شروع میں تو یہ ”لالی پاپ“ تھما دیا گیا کہ گیس سے چلنے والی گاڑی کم کرایہ وصول کرے گی اور ہم عوام تو ویسے ہی باشعور ہیں، ہمارے حسابی دماغ نے جمع تفریق کر لی۔ یوں ان گاڑیوں کو جو پہلے ہی ”موت کے کنوئیں“ کا منظر پیش کرتی تھیں باقاعدہ ”اجازت نامہ“ تھما دیا گیاکہ جو جی میں آئے کیجئے۔ ہم جاں ہتھیلی پہ لئے رواں دواں ہیں۔

سلنڈر کب تبدیل کیا جائے گا؟ کتنی بار چیک کرانا ہو گا؟ ان جھمیلوں میں کون پڑتا؟ اور وہ گاڑی جہاں گیس سلنڈر لگا ہےڈرائیور حضرات سفر شروع کرنے سے پہلے ہی سگریٹ سلگا لیتے ہیں یعنی پیچھے بیٹھے با شعور مزدور بھی غم غلط کرنا چاہیں تو شوق سے کر سکتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کے ذرا سی غلطی بڑے دھماکے کا سبب بن سکتی ہے۔

خدارا ان چلتے پھرتے خودکش بمباروں سے نمٹنے کا کوئی حل سوچیے۔ کوئی ایسا قانون لاگو کیجئے کہ“ روزانہ ” نہیں تو کم ازکم ماہانہ بنیادوں پران سلنڈرز کی تصدیق کرائی جائے اور قابل استعمال کی ”مہر“ لگوائی جائے، نہیں تو انتظار کیجیے کہ کب ہم خود اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ آپ نے وہ منظر تو دیکھا ہو گا جب پھول ”کوئلے“ کی شکل میں اٹھائے جا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).