کالی بلی، نظر کا ٹیکا اور بے چارے گدھ



کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی جڑیں ہمارے اندر بہت دور تک پھیل جاتی ہیں۔ ہمیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اندر خانے کیا کہانی چل رہی ہے لیکن وہ بہت پیچھے کہیں نہ کہیں فل سپیڈ میں دوڑ رہی ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک چیز ہمارے وہم ہیں۔ ہم جتنا مرضی پڑھ لکھ جائیں لیکن کالی بلی دیکھ کے ایک دم ٹھٹک جائیں گے۔ کبھی آزما کے دیکھ لیں، پیدل چلتے ہوئے، سائیکل، موٹر سائیکل یا گاڑی پر بھی ہوں اور کالی بلی راستہ کاٹتے ہوئے نظر آ جائے تو ایک بار آپ چونکیں گے ضرور، ہاں بعد میں بھلے ہنسی میں اڑا دیں لیکن آپ کے لیے یہ ایک واقعہ ہو گا۔ سفید، پیلی، دھاری دار بلیاں چاہے لاکھ ٹاپتی پھریں، کوئی گھنٹی نہیں بجے گی، جہاں کالی بلی نکل گئی وہیں الرٹ ہونے کا ایک الارم خود بخود اندر بجے گا۔ ضروری نہیں سب کا بجتا ہو لیکن جہاں جہاں بجتا ہے تو وہ بنیادی طور پہ دادیوں نانیوں کا بٹھایا ہوا خوف ہے جو ابھی تک ہمارے دماغوں میں باقی ہے۔

بعض باتوں کی مائتھالوجی تو سمجھ میں آتی ہے جیسے ناخن کاٹ کے ادھر ادھر نہیں پھینکنے، پانی میں بہانے ہیں، عورتوں کو سر کے بالوں کا سمجھایا جاتا تھا کہ برش کر کے اس میں سے تمام بال نکال کر کہیں الگ پھینکیں وغیرہ وغیرہ۔ اس میں لاجک یہ دی جاتی تھی کہ ناخن یا بالوں پہ جادو کیا جا سکتا ہے۔ تو سب لڑکیاں بالیاں ڈر کے مارے ناخن اور بال احتیاط سے ڈسپوز آف کرتی تھیں۔ اسے سوچا جائے تو سیدھی سی بات تھی کہ یار اچھے خاصے جراثیم ناخنوں کے اندر ہوتے ہیں، تمیز سے ٹھکانے لگ جائیں گے تو گند نہیں مچے گا۔ اسی طرح سر کے ٹوٹے ہوئے بال اگر نہیں سنبھالے جائیں گے تو ہر طرف اڑتے پھریں گے یا کنگھی اور برش میں بھی پھنسے ہوئے ایک دم میلا پن دکھائیں گے، تو ان کو بھی کوئی سیانا جادو کے ساتھ جوڑ گیا۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ ایک خوف دلایا گیا اور نسلوں کے صاف ستھرے ماحول کا بندوبست ہو گیا۔ یا وہ پرانے زمانے میں ہوتا تھا کہ تندور کی آگ ہمیشہ پاک صاف پانی سے بجھائی جاتی تھی ورنہ گھر پہ نحوست آنے کی وارننگ ہوتی تھی، یہ بھی ٹھیک بات تھی۔ گندے پانی سے تندور میں آگ ٹھنڈی کی جائے گی تو اگلے دن روٹیاں ادھر ہی لگنی ہیں ناں؟ غیر صحت مند حرکات سے روکنے کے لیے جو چیزیں گھڑی گئیں وہ تو پلے پڑ گئیں۔ اب یہ کالی بلی ٹائپ کی باتیں دیکھتے ہیں۔

الو کے ساتھ ہم لوگ اس قدر کم بختی جوڑ چکے ہیں کہ اب وہ بے چارے خود ہی کہیں نظر نہیں آتے۔ جس گھر پہ الو بیٹھا نظر آ جائے وہاں ویرانی، نحوست، پھٹکار اور پتہ نہیں کیا کیا باتیں پھیلا دی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ الو اگر اللہ میاں نے بنا دیا ہے تو بھائی وہ کہاں جائے؟ غلطی سے اگر کبھی انسانوں میں آ گیا اور گھر کے باہر کہیں بیٹھ گیا تو اسے اڑائیے مت، کچھ دیر میں بے چارہ خود ہی چلا جائے گا۔ پہلا اور آخری آزاد الو میں نے لاہور کینٹ میں دیکھا تھا۔ ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں بڑے ابو کے یہاں آتے تھے تو کچھ عرصہ وہاں سامنے بجلی کے کھمبے پہ بیٹھا کرتا تھا۔ اچھا خاصا کیوٹ تھا۔ بہرحال، نہ اس سے پہلے، نہ اس کے بعد کوئی الو نظر آیا۔ یہی کام ہم نے گدھ کے ساتھ کیا۔ ایک تو وہ بے چارہ ویسے ہی ماحولیاتی چکر میں ختم ہو رہا تھا‘ اوپر سے ہم نے سرکاری طور پہ اسے منحوس قرار دے دیا، راجہ گدھ کے بعد تو بالکل آفیشل ہو گیا کہ گدھ غریب ایک تھرڈ کلاس پرندہ ہے اور اعلیٰ نسب انسان اپنی غلط حرکتوں سے گدھ ذات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گدھ، کالی بلی اور الو کو تو ہم نے اس طرح نکرے لگا دیا۔ آگے چلیے۔

بری نظر سے بچنے کے لیے کسی کو بھی کالا ٹیکا لگا دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات وہ کالا ٹیکا ہی ایسا سجتا ہے کہ چنگا بھلا آدمی مڑ مڑ کے دیکھنے لگ جائے، جو نظر نہیں بھی لگنی ہو گی وہ بھی ٹھک کر کے لگ جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایک کالا ٹیکا بری نظر کو ڈائیورٹ کس طرح کر سکتا ہے؟ کیا یہ کوئی شعاعوں کا چکر ہوتا ہے جو کالا رنگ جذب کر لے گا یا دیکھنے والا پورے چہرے کو دیکھنے کے بجائے اسی ٹیکے کو دیکھتا رہے گا؟ اس سے بھی زیادہ ایک جدیدیت یہ ہے کہ وہی کالا ٹیکا یا کالا سا نشان ماتھے یا گال کی بجائے کان کے پیچھے لگا دیں گے، کیا نظر لگانے والے کو الہام ہو گا کہ فلاں بندے یا بندی کو نظر نہیں لگانی اس کے الٹے کان کے پیچھے کالا ٹیکا ہے؟ ان سب سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نظر ہمیشہ غریب کے بچے کو ہی لگتی ہے۔ فقیر کچھ عرصے باڈی بلڈنگ کا شوقین ہوا۔ تقریباً اٹھارہ بیس سال پرانی بات ہے۔ دو تین ماہ لگے کچھ جان پکڑ لی۔ کہیں سے جا کے سیاہ سکن ٹائیٹ شرٹ خریدی، اب پہن کے نکلتا ہے تو ماں کہتی ہے بیٹا ایسے مت جاؤ نظر لگے گی۔ بیٹا اس وقت بھی ایسا ہی نابکار تھا، نکل گیا۔ ابھی دو گلیاں کاٹی تھیں کہ تیسرے کا موڑ مڑتے ہوئے حسنین صاحب کا ویسپا سلپ ہوتا ہے‘ اور قریب ہی ایک عدد نالی بھی پائی جاتی ہے۔ وہاں لیٹے لیٹے بس یہ خیال آتا ہے کہ مالک، آرنلڈ شیوارزنیگر اور سلمان خان کو نظریں کیوں نہیں لگتیں؟ اتنی محنت کر کے تھوڑے سے بازو کیا بنا لیے، اب نظریں بھی لگا کریں گی؟ وہ جو ہر فلم میں قمیص اتار کے گھومتے ہیں وہ کیوں نہیں گرتے شرتے یا بیمار ہوتے؟ خیر صبر آ ہی جاتا ہے لیکن اس باڈی کا فائدہ کیا جو آپ دکھا ہی نہ سکیں، اس دن جم کو سات سلام کر دئیے۔

نظر کے پیچھے کیا اصول کام کرتا ہے، اس پہ سنجیدہ بات ہو جائے۔ دیکھیے نظر لگنے کا فلسفہ اصل میں ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ بیٹا ایک حد تک اپنے اوپر توجہ دینی ہے، اس قدر چمک کے باہر نہیں نکلنا کہ جو ایسی تیاری نہیں کر سکتے وہ اپنے دل میں برا محسوس کریں۔ یا کوئی قدرتی طور پہ اتنا حسین نہیں ہے جتنے آپ ہیں، یا آپ کے جیسا جسم نہیں ہے، یا سجاوٹ کے لیے کپڑے، جوتے زیور نہیں ہیں، تو بس ماڈیسٹ ہو کے گھر سے نکلیں۔ نظر لگنے سے ڈرایا اسی لیے جاتا ہے کہ بندہ ایک دائرے میں رہ کر خود پہ توجہ دے۔ اگر نوکری (ماڈلنگ/ ایکٹنگ/ ریسیپشن/ اشرز) ایسی ہے جس کے لیے نک سک سے تیار ہونا لازمی ہے تو پھر الگ بات ہے لیکن اگر بینک، کالج یا سکول جانا ہے اور تیاریاں روز ولیمے والی کرنی ہیں تو یہ غلط بات ہے۔ ہر دفتر میں انسانوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ہیو ناٹس زیادہ ہوتے ہیں، جن کے پاس سب کچھ ہے وہ بہت کم ہوتے ہیں۔ تو اتنا بننا سنورنا جو دوسروں کو احساس کمتری میں گرفتار کر دے، اس سے بچنے کے لیے بزرگ نظر لگنے والی سائنس ایجاد کر گئے۔ ہم لوگ ایک کالا ٹیکا لگاتے ہیں ساتھ میں بیس تولے زیور لاد لیتے ہیں یا کچھ بھی ایسا کام کرتے ہیں جو عام بندہ افورڈ نہیں کر سکتا، یہ غلط ہے۔ نظر لگنے کی فلاسفی اپنے دماغ کو یہی سمجھ آتی ہے۔

ناخن، بال، کالا ٹیکا، چاند گرہن، سورج گرہن، تیرہ کا ہندسہ، ٹوٹے ستارے کو دیکھ کے دعا مانگنا، الٹی چپل سیدھی کرنا یا دنیا بھر میں کوئی بھی وہمی کام جسٹیفائے ہو سکتا ہے لیکن کالی بلی، الو اور گدھ کے ساتھ بہرحال ہم لوگوں نے خاص زیادتی ہے۔ چونکہ یہ تینوں منحوس سمجھے جاتے ہیں اس لیے بندہ گھر میں بھی نہیں پال سکتا۔ الو اور گدھ تو دور کی بات ہے بلکہ مشکل ہے، آپ ایک کالی بلی پال کے دیکھ لیں، جو بھی مہمان آئے گا یہی کہے گا، آئے ہائے، کیا نحوست گھر میں پھیلائی ہوئی ہے، تمہیں کوئی اور بلی نہیں ملی؟ جانور معصوم ہوتے ہیں، بے قصور ہوتے ہیں، انہیں توہمات کے دائرے سے باہر آ کے دیکھیے، پسند آئیں گے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain