معاملہ خواتین پر ہلکے پھلکے ’’ تشدد‘‘ کا


\"aamir

اسلامی نظریاتی کونسل کی خواتین کے حوالے سے تجاویز پر بحث کے دوران سب سے زیادہ گرما گرم ایشو خواتین کی تادیب کا رہا ہے۔ پہلے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ تادیب ہے، تشدد نہیں۔ تشدد ایک انتہائی منفی اصطلاح ہے، جسے قطعی طور پر اس معاملے میں برتا نہیں جاسکتا۔ ہلکا پھلکا تشدد کے الفاظ بھی اس کے خوفناک تاثر کو کم نہیں کر سکتے ۔ یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ یہ کسی بیوی سے تنگ آئے مولوی کی سوچ یا فتویٰ نہیں بلکہ اﷲ کی آخری کتاب قرآن کی ایک آیت ہے، جس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ سورہ نسا ء کی آیت نمبر چونتیس کا آخری ٹکڑا ہے، ترجمہ: اور جن سے تمہیں ’’سرتابی‘‘ کااندیشہ ہوتو ان کو نصیحت کرو اور ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دواور ان کو ’’سزا ‘‘ دو۔ پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک اﷲ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ ‘‘(ترجمہ : مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر القرآن)۔

اس آیت مبارکہ میں دو الفاظ اہم ہیں۔ ’’ نشوز‘‘ جس کا ترجمہ مولانا مودودی اور جاوید احمد غامدی نے ’’سرکشی‘‘ کیا جبکہ مولانا جونا گڑھی نے نشوز کو سمجھانے کے لئے’’ نافرمانی اور بددماغی ‘‘کے الفاظ برتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس سے مراد’’ نافرمانی‘‘ لی ۔ مشہور نومسلم یورپی سکالر علامہ اسد نے اپنے ترجمہ قرآن میں نشوز کا ترجمہ کیا ہے، ایسا سوچا سمجھا اورمتواترطرز عمل جو بطوربیوی اسے نہیں کرناچاہیے تھا۔ تشریح میں علامہ اسد نے اشارہ کیا کہ یہ ایسی بدترین صورت ہے، جب بیوی کا رویہ غیر اخلاقی ہو (کسی غیر سے تعلق )۔

اس نشوز کے ارتکاب کی صورت کو ڈیل کرنے کے لئے قرآن میں تین چار مرحلے تجویز کئے گئے ہیں۔ پہلایہ کہ بیوی کو سمجھایا جائے، دوسری صورت میں مرد اپنی ناراضی ظاہر کرنے کے لئے اپنا بستر الگ کر لے، اگر پھر بھی صورتحال بہتر نہیں ہو رہی تو تیسرے فیز میں کہا گیا’’واضربو‘‘یعنی اسے سزا دو۔ مولانا اصلاحی اور جاوید غامدی صاحب نے اپنے اپنے ترجمہ قرآن میں’’اور سزا دو‘‘ کے الفاظ استعمال کئے، جبکہ مولانا مودودی نے ترجمہ کیا ’’اور مارو‘‘،مولانا جوناگڑھی نے ’’مار کی سزا دو‘‘ لیا۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ یہ تادیب یا سزا مرد کا آخری اور انتہائی اختیار ہے ۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنی تفسیرماجدی میں لکھا کہ ایسا نہیں کہ عورت کی بغاوت ونافرمانی کے بارے میں محض بدگمانی یا دور کے احتمالات ہی کو کافی سمجھ لیا جائے، بلکہ جب اس کی’’بغاوت‘‘ تجربہ میں آ جائے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے زور دے کر لکھا ’’ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بے پروائی یا اپنی شخصیت، رائے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش کونشوز نہیں کہہ سکتے، بلکہ ایسا اقدام جس سے گھر کی مملکت میں بدامنی و اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ ‘‘ آسان الفاظ میں مردوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بیوی کی طرف سے بریانی وغیرہ اچھا نہ پکانا، سالن میں نمک مرچ تیز ہوجانا، عورت سے گھر کی صفائی ستھرائی میں کوئی غفلت یا اس کی جانب سے مرد کی کسی رائے سے اختلاف، بحث وتمحیص یا اپنی ذاتی پسند، ناپسند کے اظہاراور مرد کی کسی خواہش کو پورا کرنے میں کوتاہی قطعی طور پر نشوزنہیں سمجھی جائے گی۔

اگلا سوال ہے، اس تادیب یا سزا سے کیا مراد ہے ؟ بقول مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی، صرف اتناجس حد تک ایک معلم اپنے کسی زیر تربیت شاگرد کو دے سکتا ہے۔ پیرکرم شاہ نے ضیا القرآن میں حضرت عبداﷲ ابن عباس ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر مارنے کی نوبت آئے تو مسواک یا اس قسم کی ہلکی پھلکی چیز سے مارے۔ یاد رہے کہ احادیث میں چہرے پر مارنے کی تو قطعی ممانعت ہے ۔ بعض قدیم
مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ہلکے کپڑے یا رومال کا گولہ سا بنا کر بطور تادیب مارا جائے، بعض کے خیال میں تکلیف نہ دینے والی ہلکی سی تھپکی، جیسی استاد شاگرد کو اپنی ناراضی کے اظہار کے لئے لگاتا ہے ۔ علامہ اسد نے اس پر خاصی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اس انتہائی کیفیت میں مرد کے ردعمل کی آخری حد ہے،جس کی بیوی ’’اخلاقیات کی حد‘‘ عبور کر گئی ہو، ایسی صورت میں بھی یہ پابندی ہے کہ نشان نہ پڑے (غیر مبرح ہو)، علامہ اسد نے مسواک کی جگہ ٹوتھ برش کا لفظ استعمال کیا ہے۔

علامہ اسد ہی نے شوافع علما کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اس سزا کی بمشکل (انتہائی صورت میں)اجازت دی گئی اور بہترطریقہ یہی ہے کہ ایسا نہ کیا جائے ۔ یہ علما اور علامہ اسد اس کی دلیل سرکار مدینہؐ کے اس قول مبارکہ سے لیتے ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اس (سزا کے دینے )سے گریز کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ہمارے آقا اور سرداروں کے سردار انحضرت ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔

اسی پس منظر میں بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کی ابتدائی ترویج ایک ایسے قبائلی معاشرے میں ہوئی، جہاں آپس میں لڑائی جھگڑا اورقبائلی سخت گیری عام تھی، ایسے قبائل تھے جو اپنی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیتے ۔ خواتین پر تشدد بلکہ بے رحمانہ تشدد عام تھا اور معمولی سی بات پر مرد اپنی بیویوں کا مار مار کر کچومر نکال دیتے ۔ اس آیت کے ذریعے رب تعالیٰ نے مردوں کے وحشیانہ مار پٹائی کے اختیار کو محدود بلکہ محدود تر کیا ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ عام حالات میں نہیں بلکہ صرف انتہائی شکل میں اس حد تک جایا جا سکتا ہے، وہ بھی مختلف مراحل میں ۔ ایسا نہیں کہ سمجھانے اور بستر الگ کرنے اور پھر تادیب تک پہنچنے کا کام ایک ہی رات ہوجائے گا۔ ان سب میں چند دن لگیں گے، اتنے میں فوری اور انتہائی طیش والی کیفیت ظاہر ہے ختم ہوجائے گی۔ پھر جس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور بیوی بھی انتہائی سرکشی (دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات والی افسوسناک اورہر معاشرے کے لئے ناقابل قبول شکل کو بھی ذہن میں رکھیں )سے باز نہیں آئی اوراس زمانے میں بلکہ ہمارے جیسے ممالک، جہاں آج بھی اچھے بھلے پڑھے لکھے مرد ایسی صورت میں بیویوں کو قتل کرنے یا شدید ترین تشدد پر تل جاتے ہیں۔ ان سب پر قرآن یہ پابندی عائد کر تا ہے کہ صرف معمولی تادیب کی جا سکتی ہے۔ اس لئے بیوی کی پٹائی لائسنس قطعی نہیں بلکہ بعض انتہائی صورتوں میں خاوند کے( ممکنہ) شدید ردعمل کو محدود تر کرنے کا طریقہ ہے۔

اہل علم کی یہ رائے بھی ہے کہ جس طرح غلامی کو قرآن نے براہ راست ختم نہیں کیا بلکہ اس میں ریفارمز لائی گئیں۔ غلاموں کے اوقات کار کو نرم کرنا، مالک کو پابند کرنا کہ جو خود کھائے، خود پہنے، غلام کو بھی وہی کھلائے، پہنائے، غلام آزاد کرنے کی بے پناہ فضیلت اور ترغیب ۔ مقصد یہ تھا کہ بتدریج غلامی کا خاتمہ ہوجائے۔ جب انسانی شعور ایک خاص سطح پر پہنچے تو یہ ناپسندیدہ انسٹی ٹیوشن ازخود دم توڑ جائے ۔ اسی طرح یہ بیوی کی تادیب والا معاملہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ آج جن مہذب ممالک میں انسانی شعور اس سطح تک پہنچ چکا ہے کہ بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا تصور ہی انہیں غلط لگتا ہے، وہاں تو ویسے بھی یہ ایشو ہی نہیں رہا، جیسے غلامی کا ایشو بھی آج ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں جہاں ابھی تک نیم قبائلی اور دیہی معاشرے کے شیڈز موجود ہیں، یہاں کے مردانتہائی غیظ وغضب کی کیفیت، جس میں وہ بیوی کی سرکشی (یاایسی صورت جس میں اس نے خاوند کے ازدواجی حقوق کسی دوسرے کو تفویض کر دئیے)میں بھی اسے پیٹ نہیں سکتا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہمارے آقا، حبیب خداﷺ یہ کہہ چکے ہیں کہ امت میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اس آپشن کو استعمال نہ کرے۔ کون سا وہ امتی ہے جو اپنے پیارے نبیؐ کی اس ہدایت کو نظرانداز کر نا چاہے گا؟ یہ ہے وہ پورا پس منظر، جس کو ذہن میں رکھنے سے کوئی چاہے تو بات سمجھنا مشکل نہیں۔ وما علینا الا البلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments