وہاں سے کیوں بھاگی؟


معمول کا دن تھا میں اپنے چیمبر میں بیٹھا کچھ مؤکلوں سے بات کررہا تھا جب کمرے کا دروازہ کھلنے پر ایک آدمی اور ایک خاتون اندر داخل ہوئے۔ میں نے اُن کو ایک طرف بٹھایا اور کمرہ خالی ہوجانے پر ان سے مخاطب ہوا ”جی فرمائیے؟ “۔

”سر میرا نام جیون ہے ہم کوٹ چٹھہ سے آپ کے پاس اپنا معاملہ لے کر آئے ہیں“ چھریرے بدن لیکن انتہائی سانولے رنگ والے اس نوجوان نے مجھے ذرا بھی متاثر نہیں کیا تھا۔ بولنے کے انداز میں بھی ہاکروں جیسا زور تھا جو سمع خراشی کے لفظ پر پورا اترتا تھا۔

”جی فرمائیے میں کیا مدد کر سکتا ہوں؟ “ میں نے میکانکی انداز میں پوچھا۔

” سر ہم کورٹ میرج کے سلسلے میں آپ کے پاس آئے ہیں، اس کا نام آسیہ ہے میں اسے کوٹ چٹھہ سے لے کر یہاں آیا ہوں“ جیون نے اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی کافی خوش شکل لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔

”آپ نے ابھی شادی نہیں کی تو یہ بچہ کس کا ہے“؟ میں نے لڑکی کی گود میں انگوٹھا چوستے اس گول گول آنکھوں والے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ ” سر یہ بچہ اِس کے پہلے شوہر سے ہے“۔

”تو کیا اُس سے طلاق ہوگئی ہے؟ “ میں نے براہ راست خاموش بیٹھی لڑکی سے پوچھا۔
”نہیں جی ابھی نہیں لی“ لڑکی کی آواز میں گھبراہٹ کی بجائے کافی اعتماد تھا۔
”وہ بھی آپ کرا دیں گے وکیل صاحب“ جیون نے مداخلت کی۔

اب مجھے پورا کیس سمجھ آ چکا تھا آسیہ ایک شادی شدہ لڑکی تھی جس کو جیون اس کے خاوند کے گھر سے بھگا کر لے آیا تھا اور اب پہلے شوہر سے طلاق دلوا کر اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

میں نے دونوں کو آسان الفاظ میں طریقہ کار سمجھایا کہ پہلے لڑکی کو دارالامان بھجوانا پڑے گا وہاں سے وہ تنسیخ کا دعوٰی دائر کرے گی، عدالتی طلاق ہوجانے کے بعد عِدت کا عرصہ گزار کر اُن کی شادی کرا دی جائے گی۔

لمبی چوڑی عدالتی کارروائی کا سن کر دونوں کے چہروں پر آنے والی پریشانی اور اضطراب کو کم کرنے کے لئے میں نے ان کا کام جلد سے جلد مکمل کرادینے کی یقین دہانی کرائی جس کے لئے ہمیں قانونی کارروائی فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت تھی۔

فیس کی پہلی قسط وصول کرکے جیون کو میں نے اپنے منشی کے ساتھ ضروری کاغذات لانے کے لئے بھیجا اور خود اُن کی درخواست لکھنے بیٹھ گیا۔
اِس دوران لڑکی کے بار بار پہلو بدلنے سے میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔ میں نے اس کو مخاطب کیا اور اس سے کہا کہ وہ اعتماد سے بات کرسکتی ہے۔

تب اُس نے جھجکتے ہوئے کہا ”وکیل صاحب پہلے مرحلے کی فیس آپ کو جیون ادا کر چکا ہے، اُس کے پاس اور پیسے نہیں ہیں آپ اُس سے مزید رقم نہ مانگیے گا“۔

”بی بی اس طرح تو نہیں ہوتا میں فیس لئے بغیر اتنا لمبا چوڑا کیس نہیں کرسکوں گا“۔ میرے لہجے کا پروفیشنل ازم اسے یقیناً پسند نہیں آیا ہو گا۔

”سر میں یہ بات نہیں کہہ رہی“ اُس نے بوکھلا کر کہا۔ ”میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ابھی اُس سے مزید فیس نہ مانگیں تنسیخ کے بعد جب میں دارالامان سے واپس آؤں گی تو چند ہی دنوں میں آپ کی ساری فیس ادا کردوں گی“۔

”مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی تب آپ کہاں سے لائیں گی اتنے روپے؟ “میرے لہجے سے مفت کے مقدمے کو لڑنے والی اُکتاہٹ جا ہی نہیں رہی تھی۔
”سر میں خود کما کر دوں گی“۔ میری آنکھوں کی اُلجھن اُسے بتا رہی تھی کہ وہ اپنی بات نہیں سمجھا پائی ہے۔ اِس لیے وہ پہلو بدل کر کُرسی پر کچھ آگے کو ہو کر بیٹھتے ہوئے تیزی سے بولی۔

”سر میں کُھل کر آپ کو بتا دیتی ہوں دارالامان سے واپسی کے بعد میں کچھ لوگوں کے ساتھ وقت گزار کر پیسے جمع کرلوں گی“۔ میرے چونکنے پر اُس نے توجہ نہیں دی اور اسی دھن میں کہنے لگی۔ ”میں پہلے بھی یہی کام کرتی رہی ہوں، میرا سابقہ شوہر شروع میں محنت مزدوری کیا کرتا تھا پھر اُسے نشے کی لَت لگ گئی، آہستہ آہستہ کام ختم ہوتا گیا اور فاقہ شروع ہونے لگا، بھوک بڑھنے لگی اور نشہ اترنے لگا، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ جس نے اُس کی عزت اور غیرت کو دروازے کی درزوں سے بھی باہر نہ جانے دیا تھا، جس نے اُس کی نسلوں کی تشکیل کرنی تھی، جس نے روٹی کی شدید بھوک میں بھی اپنے پیٹ پر بندھے ہوئے پتھر نہ دکھائے تھے اب اُسی روٹی کے لئے اُس کا شوہر اُس پیٹ سے نیچے سوچنے پر اُتر آیا تھا۔

رفتہ رفتہ گھر میں اُس کے دوست آنے لگے اور غیرت نشے کے ٹیکے لگا کر خراٹے مارنے لگی۔ چند دن تو تکلیف میں گزرے وکیل صاحب، لیکن پھر جیسے عادت ہوتی گئی۔ میں جیسے ماحول کو قبول کرچکی تھی۔ لُٹ جانے کے درد کا مداوا حاصل ہونے والی رقم کو سمجھنے لگ گئی تھی۔

مگر پھر کچھ تبدیل ہوا، ایک دو راتیں گزارنے کے بعد یہ جیون بار بار میرے پاس آنے لگا، گناہ کے پسینے میں ڈوبے ہوئے لمحوں میں کسی وقت میں اس کو بھا گئی تھی شاید۔

پھر ایسا ہوا کہ یہ اپنی میٹھی باتوں سے مجھے اپنی طرف مائل کرنے لگا، مجھے بتانے لگا کہ میں جبر کی زندگی گزار رہی ہوں، اگر میں اِس کا ساتھ دوں تو یہ مجھے اُس نشہ باز سے آزاد کرالے گا۔ بہت عرصہ ہوگیا تھا وکیل صاحب! چڑھتی ہوئی سانسوں میں تو بہت بار میں نے اپنے لئے پیار کے لفظ سُن رکھے تھے لیکن چمکتی آنکھوں میں اپنے لئے محبت کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ترسی ہوئی تھی، پگھل کیسے نہ جاتی۔

جسم تو پہلے ہی ہار گئی تھی، پہلی بار تھا جب دل بھی دے بیٹھی۔ اُس کے بعد کا سفر بہت دشوار تھا، لمبی پلاننگ، پیسوں کا بندوبست، پولیس کا خوف، معاشرے کا سامنا، بہت کٹھن سفر کرکے یہاں تک پہنچے ہیں سر اب آپ کا آسرا ہے، قانونی تحفظ مل جائے تو اپنے لئے کچھ کریں گے“۔

ایک سناٹا تھا، اُس کے چپ کرتے ہی جو پورے کمرے میں پھیل چکا تھا۔ رَسل سے لے کر مَنٹو تک کے تمام فلسفے میری آنکھوں کے آگے اُڑتے پِھر رہے تھے۔ میں جو کچھ سُن چکا تھا اُسے سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔

مگر پھر خاموشی سے ہونے والی اُلجھن کو ختم کرنے کے لئے میں نے فوراً ہی سوال جَڑ دیا۔ ”جیون بھی تو بے روزگار ہے پھر گزارا کیسے ہوگا“؟ ”جیسے پہلے ہوتا تھا سَر“۔ آواز میں عجیب سا یقین تھا۔ فلسفے چکرانے لگے۔

”یہی کچھ کرنا تھا تو پھر وہاں سے کیوں بھاگی؟ “۔

سر جی وہاں اُس کا نشہ پورا کرنے کے لئے وہ سب کرتی تھی، وہاں میں اس نشے باز کی زندگی جی رہی تھی اپنی نہیں۔ غلط یا صحیح، یہاں اپنے لئے کروں گی، اپنی مرضی سے، اپنے وجود اور اپنی محبت کی خاطر“۔
جبر اور رضامندی کے فلسفے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).