بانیہ


یہ بہت حسین خنک و نم رات تھی۔ ستارے آسمان پر مسکرا رہے تھے۔ چاند آسما ن پر اور زمین پر بہت دن بعد آیا تھا۔ سو مست مسرور سے نیم سفید بادل اس کے گرد مدھر رومانوی رقص میں اِترا رہے تھے۔ وہ چاند تھا اپنی مستی میں مست، نازاں۔ کہ چاہے جانے کا بھی تو اک الگ ہی نشہ ہے جس کا خمار اْترے نہیں اترتا۔
آسما ن پہ اک الگ رومان آج اپنی کا ئنا ت بسائے ہو ئے تھا۔ زمیں پہ اک دل فریبی مہک رہی تھی۔

اس کے کمرے کی رائل بلو اور آف وایٹ مدھم روشنیاں، اک دوجے میں مدغم ہو ئے چلی جا رہیں تھیں۔ بستر پہ موتیا چادر بچھی تھی جس میں سہاگ کی سی سنہری تاریں کھکھلا رہیں تھیں۔ دو بڑے کْشنز، ایک گاؤ تکیہ، دوچھوٹے کشن سب کی موتیا زمین پہ ہلکے پیازی پھولوں کی بہار تھی۔ جن میں سنہری تاریں ست رنگ ستاروں کی طرح چمک رہی تھی۔
آرگینزا کے موتیا رنگی پردے کھڑکی سے آتی مست ہو اکے سنگ یوں جھوم رہے تھے۔ جیسے وائلن کے تار بج اٹھے ہوں۔

عورت بھی عجب ہے کیسی بھی کیوں نا ہو، کہاں بھی ہو اس کادل کسی خاص کے لئے سنورنے کو ہمیشہ گدگداتا ہے۔ سجنے کو من چاہتا ہے۔ اور اس موتیا رنگی کمرے کی عورت اس کی تو آنکھیں اور دل محبت اور حسن کے پیاسے تھے۔ اس کی فطرت بھی عجیب ہے، اسے بھوک نہیں لگتی پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی حدتوں سے پیاسی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ چاہنے والا تناول سمجھتا ہے، نوش کو ناک پہ نہیں رکھتا۔

اس نے پردہ ہٹا کر چاند کی طرف دیکھا اس پہ دل آگیا، چودھویں کا تھا۔ جھٹ سے پردہ گرا دیا تو کمرے کے ماحول سے مچل اْٹھی۔ الماری کھولی، ایک پھولوں سے بھرا شوخ کْرتا نکالا، چوڑی دار پاجامہ، اور ویسا ہی شوخ و چنچل دوپٹہ۔ شب خوابی کا لباس اتارا اور اسے گلے لگا لیا۔ سنگھار میز کے پا س گئی، دائیں ہاتھ کی دراز کھو لی، نفیس ترین جیولری سے بھری پڑی تھی۔ اس نے ان میں سے کلیوں کی مانند پنگ آویزے نکا لے۔ اور کانوں میں ڈال لئے۔ چہرے پہ ہلکی سی پفنگ کی، آنکھوں میں کاجل کی لکیر پھیری۔ ہاتھوں پیروں کے ناخنوں پہ گلابی پتیاں بکھیر دیں۔ اس کے ہاتھ کسی مورتی کے جیسے تھے۔ جو اور مقدس لگنے لگے۔ ہو نٹوں پہ شوخ سا پیازی رنگ نفاست سے جما دیا۔ جوں جوں وہ خود میں رنگ بھر رہی تھی توں توں اک خمار سا اس کو اپنی با ہوں میں لے رہا تھا۔

اس نے دوسری دراز سے پھو لوں بھری انگوٹھیاں نکا لی اور دونوں ہا تھوں کی نازک انگلیوں میں سجا لیں۔ پھر اس نے چند اور پیازی کلیاں نکا لیں اور ہیر پین کی مدد سے بالوں میں بہار بھر دی۔
ڈریسنگ روم میں گئی الماری سے قوس قزاح کے ستاروں والی نرم و ہلکی پھلکی سی جو تی میں پیرچھپا لئے۔ بیڈ پہ رکھا بہا ر رنگ دوپٹہ اٹھایا اور لہرا کر کا ندھوں پہ لے لیا۔ اترا کر، شر ما کر، کھڑکی کا پردہ اٹھایا، چاند ذرا آگے کو بڑھ گیا تھا۔ پردہ گرایا اور کمرے کے اس کو نے کو چل دی جہاں اک ہم قد آئینہ لگا ہو اتھا۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی خود کو سر تا پا دیکھ کر شرما سی گئی۔ اپنے آپ سے نظریں چڑا گئی۔ کہ اس کی آنکھوں سے اچانک رم جھم ہو نے لگی۔

اس نے آئینے کے ساتھ رکھی لکڑی کی میز پہ سے ٹشو پیپر لیا اور آنکھیں صاف کرنے لگی۔
” نہیں میری جان۔ وہ میری رات تھی۔
میری، تمہاری رات تھی۔ ، تمہاری، میری رات۔ تھی“
وہ آنکھیں صاف کر تے اٹھی، اور بستر پہ الٹی لیٹ گئی۔

کہنیوں کے بل اٹھی، تکیے کے نیچے سے ڈائری نکالی۔ اور اس پہ کچھ لکھنے لگی۔ لکھتے لکھتے پھر سے آنکھوں نے ڈائری کو بھگو دیا۔ اس کے بال جھک کر ڈائری کو چھونے لگے۔ وہ انگلی سے انہیں پیچھے کرتی۔ مگر کھڑکی سے آتی ہو ا، تیز ہو تی جا رہی تھی، جو اس کے با لوں کو اس کے گالوں تک لے آتی۔
با لوں نے ڈائری کے کچھ لفظوں کو چھو کر آزاد کر دیا۔ وہ ہو اکے سنگ اڑنے لگے
اے زندگی۔ اب کبھی کھلے آسمانوں میں۔ بے کراں سمندروں کے سینوں پہ۔ ہم کبھی جو ملے۔
تو۔ تمہیں گلے کیسے لگاؤں گی۔ ؟ کیسے؟

اس کی آنکھوں سے موتی ٹپکے اور ڈائری کے اوراق بھیگ گئے۔ اس نے ڈائری کو اس کا بو جھ اٹھانے نہیں دیا۔ اور بند کر دیا۔ ڈائری کو تکیے کے نیچے واپس رکھ دیا۔
وہ اٹھی، نیلی روشنی گل کر دی۔ مدھم موتیا اداس روشنی تنہا رہ گئی۔ جیولری اتاری۔ کپڑے اتارے اور وہی شب خوابی کا لباس پہنا، باتھ روم میں جا کر منہ ہاتھ دھویا۔ اور لیپ ٹاپ لے کر بستر پہ بیٹھ گئی۔ اک مووی جو اس نے کسی ایسی ہی جا گتی رات کے لئے سنبھال رکھی تھی نکا لی اور دیکھنے لگی۔

زندگی بس اک خواب کی طرح یہاں ہم آغوش تھی۔ پا نی کا سکو ت، بارش کے قطروں سے باہر ٹوٹ رہا تھا۔ تو اس سفید گھر کے اند ر، سفید کمرے میں، سفید بستر پہ، دو حیں ٹوٹ پھوٹ کر اک جا ہو رہی تھیں۔ کبھی ہنستی تو کبھی کرب سے بے چین ہو جاتیں۔ حسن تھا، کیف تھا، سب کچھ سفید مگر لمحات و جذبات سچے و سْچے رنگین تھے۔
وہ پھر سے رونے لگی۔ باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

سکرین پہ محبت اپنی آخری پر سکون سانس لے رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر آسمان اور زمین اک دوجے کی اور کھچ رہے تھے۔
اس نے لیپ ٹاپ بند کیا۔ اٹھی کھڑکی بند کرنے لگی۔
اسے کسی نے ہنستے ہو ئے اچانک بستر پہ گرا دیا اور خود اس کے اوپر آگرا۔ وہ بھی ہنسنے لگی۔
تمہیں کیسے پتا میں تمہیں یاد کر رہی تھی؟
کیونکہ دل کو دل سے راہ جو ہوتی ہے۔
وہ کھکھلا کر ہنس پڑی۔

وہ جب بھی اس کے پاس ہو تا تھا۔ اس کا دل کرتا ہنستی رہے، مسکراتی رہے۔ جب سے وہ اس کی زندگی میں آیا تھا۔ اس کے گا لوں پہ سرخی بکھر گئی تھی۔ اس کا رنگ چمکنے لگا تھا۔ اس کا دل بات بے بات ہنسنے کو کرتا تھا۔ اسے سب کچھ حسین لگنے لگا تھا۔ وہ اندر تک جاگ گئی تھی۔ اس کا دل کرتا بس وہ اسے یونہی چاہتا رہے۔ وہ یونہی پگھلتی رہے۔ کوئی یونہی اس کے روم روم تک اترتا رہے۔ یونہی اپنی باہوں میں لے کر بھول جائے۔ اور باہوں سے اپنے وجود کا حصہ بنا لے۔ جس کو جدا نا کیا جا سکتاہو۔ ایسا پہلے کبھی نا ہوا تھا۔

اس نے آج کی رات بھی ایسا ہی کیا۔ وہ ہنستے ہنستے اس کے ساتھ پگھل گئی وہ ہنستے ہنستے اس میں آج بہت دور تک چلا گیا کہ اسے اپنا ہوش بھی نا رہا۔ ایسا بھی پہلے کبھی نا ہوا تھا۔ کہ وہ ہنستے ہنستے اپنی ہنسی کھو بیٹھا ہو۔
وارفتگی میں وہ اس کے ہونٹ، اس کی گردن چومنے لگا۔
” بانیہ۔ میری طرف دیکھو۔ “
وہ چومتا ہی چلا جارہا تھا۔ آج اسے نجانے کیا ہو گیا تھا۔ آج یہ وہ نہیں تھا۔

اور وہ اس پہاڑ کے بوجھ تلے سے اچانک اک درد سے نکل گئی، جیسے اچانک کسی زلزلے نے انگڑائی لے لی ہو۔ اور آنکھوں سے آبشاریں بھوٹ پڑی ہوں۔ ایک ایک قطرہ سسکی اور ہچکی میں بد ل گیا۔
نہیں میری جان۔ ”میں بانیہ نہیں ہو ں“
”میری، تمہاری رات تھی۔ ۔ آج کی رات۔ “
ایک روح وارفتگی کے نیچے نجانے کب جسم سے نکل گئی۔
اک جسم جسم کے نیچے ہی دفن ہو گیا
کھڑکی سے آتے تیز ہوا کے طوفانی جھونکے سے اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔
اس نے پورازور لگا کے کھڑکی بند کر دی۔
مگر
طوفان نا باہر تھما، نا اندر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).