کاش ہماری یادداشت چلی جائے (مکمل کالم)۔


چند فرضی کرداروں سے آپ کا تعارف کرواتے ہیں۔ پہلا کردار روڈولف بیکر کا ہے۔ یہ جرمنی کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت Alternative für Deutschland (AfD) کا رکن ہے۔ یہ جماعت اپنے سخت گیر نظریات کی وجہ سے مقبول ہے جو یورپی یونین اور امیگریشن قوانین کی سخت مخالف ہے۔ روڈولف اس کا زبردست حامی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ غیر جرمن لوگوں نے جرمنی کا ستیاناس کر دیا ہے اس لیے کسی غیر جرمن کو یہاں کی شہریت نہیں دینی چاہیے، خاص طور سے ایشیائی نسل کے لوگوں اور مسلمانوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ روڈولف مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ جرمنی میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں، اس کا یہ بھی خیال ہے کہ جرمن نسل کے لوگ دیگر اقوام کے مقابلے میں افضل ہیں۔

روڈولف کو آپ نیو نازی کہہ سکتے ہیں گو کہ وہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتا مگر اس کے دل میں کہیں یہ بات ضرور ہے کہ ہٹلر کے نظریات کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔ روڈولف پارٹی میں نووارد ہے مگر اپنے شدت پسند نظریات کی وجہ سے اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، وہ پارٹی کے اجلاسوں میں برملا کہتا ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو وہ جرمنی سے تمام غیر جرمنوں کو نکال باہر کرے، اسلام پر پابندی لگا دے، امیگریشن کے قوانین مزید کڑے کردے اور جرمنی کی یورپی یونین کی رکنیت بھی ختم کردے۔ ایک مرتبہ اس نے برلن کے ہولوکاسٹ میوزیم کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے دارالحکومت کے عین وسط میں یہ ’یادگار خجالت‘ تعمیر کر رکھی ہے۔

دوسرا کردار راجیش پال کا ہے۔ اس کی عمر پینتیس سال کے قریب ہوگی، یہ ممبئی میں رہتا ہے، اچھا خاصا پڑھا لکھا ہے مگر آر ایس ایس کا رکن ہے۔ اس کے نظریات بھی اپنی جماعت کی طرح شدت پسندانہ ہیں۔ وہ آر ایس ایس کے گرو ’گول والکر‘ کی اس فکر کا شیدائی ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے غیر ہندو لوگوں کو یا تو ہندو ثقافت اور زبان کو اپنا لینا چاہیے یا پھر انہیں ہندو مذہب کو سیکھنا چاہیے اور اس کا احترام کرنا چاہیے اور وہ بھی ایسے کہ ان کے لیے ہندو نسل اور ثقافت کی حرمت سے زیادہ کوئی بات اہم نہ ہو، یہ لوگ صرف اسی صورت میں بھارت میں رہ سکتے ہیں کہ یہ غیر ملکی ہونا چھوڑ دیں اور مکمل طور پر ہندو قوم کے ماتحت ہو جائیں اور کسی چیز کا دعویٰ نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کی مراعات کے طلب گار ہوں، سچی بات تو یہ ہے کہ غیر ہندو لوگ اس سے بھی کہیں کم ترجیحی سلوک کے مستحق ہیں، انہیں تو شہریوں کے حقوق بھی نہیں ملنے چاہئیں۔

راجیش کو بی جے پی کے وزیر سبرا منیم سوامی کا وہ انٹرویو بھی بہت پسند آیا تھا جس میں اس وزیر نے کہا تھا کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 14 صرف ان شہریوں کو برابری کے حقوق دیتا ہے جو آپس میں برابر ہوں، مسلمان چونکہ باقی شہریوں کے برابر نہیں اسی لیے وہ برابری کے اس درجے پر فائز نہیں کیے جا سکتے جہاں وہ مساوی حقوق کے حقدار ٹھہرائے جا سکیں۔ راجیش آر ایس ایس کے اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور مسلمان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، مسلمانوں پر تشدد کر کے انہیں جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنا اس کا محبوب مشغلہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے ہندو ماتا کے دو ٹکڑے کیے، اس کا بدلہ لینے کے لیے اکھنڈ بھارت بنانا ضروری ہے مگر اس ہندوستان میں یا تو صرف ہندو ہوں گے یا پھر وہ غیر ہندو جو مکمل طور پر ہندوؤں کے تابع اور غلام بن کر رہیں گے۔

اس کہانی کا تیسرا کردار پاکستان میں ہے۔ اس کا نام عبد الرشید ہے۔ عبد الرشید کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے، اس کے والد معتدل مذہبی خیالات رکھتے تھے، عبد الرشید جب پیدا ہوا تو ان کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے، لہذا عبد الرشید کو مقامی مدرسے میں بھیج دیا گیا، اس نے اپنا بچپن اور لڑکپن اسی مدرسے میں گزارا، جب وہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہوا تو اس کے خیالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے تھے، وہ اپنے مسلک کے علاوہ تمام لوگوں کو کافر سمجھنے لگ گیا، اس کا ماننا تھا کہ جو لوگ اس دجالی نظام کے خلاف مسلح جد و جہد نہیں کرتے وہ عملاً اس نظام کی حمایت کے مرتکب ہوتے ہیں لہذا مدرسے کے مفتی صاحب کے مطابق انہیں مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔

سنہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو عبد الرشید کی عمر تقریباً پندرہ سولہ سال تھی، وہ امریکی فوج کے خلاف لڑنے افغانستان چلا گیا، اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں سے زندہ سلامت واپس آ گیا۔ آج کل وہ ایک شدت پسند تنظیم کے ساتھ منسلک ہے اور اس کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے ’مسلح جد و جہد‘ کر رہا ہے، اس کا ماننا ہے کہ جو لوگ اس جد و جہد میں اس کے ساتھ نہیں، انہیں قتل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ پاکستان میں بسنے والے غیر مسلموں کی اس کی نظر میں کیا اہمیت ہے یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں، اس کے خیال میں غیر مسلموں کو اسلام قبول کر لینا چاہیے یا پھر جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر سایہ رہنا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ عبد الرشید آئین، قانون، پارلیمان اور جمہوریت کو خرافات سمجھتا ہے۔

ایک منٹ کے لیے فرض کریں کہ برلن کے روڈولف بیکر، ممبئی کے راجیش پال اور لاہور کے عبدالرشید کی یاد داشت چلی گئی ہے اور ان کے ذہن سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے تھے، کیا تعلیم حاصل کی تھی، کس قسم کے نظریات کا مطالعہ کیا تھا، کیسے لوگوں میں اٹھے بیٹھے تھے، ان کا مذہب، مسلک اور عقیدہ کیا تھا، ان کا بچپن، لڑکپن اور جوانی کہاں اور کیسے گزرا تھا۔ اب ان تینوں کو نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔ چونکہ یہ کردار ہمارے تخلیق کردہ ہیں اس لیے ہم ایسا کرتے ہیں کہ روڈولف کو لاہور بھیج دیتے ہیں، عبد الرشید کو ممبئی منتقل کر دیتے ہیں اور راجیش کو برلن میں AfD پارٹی کے کسی رکن کے گھر بھیج دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ان تینوں نے اب زیرو میٹر ذہن کے ساتھ زندگی کا آغاز کرنا ہے، روڈولف مدرسے میں پڑھے گا، عبد الرشید آر ایس ایس کی تعلیم حاصل کرے گا اور راجیش AfD کی سرپرستی میں پروان چڑھے گا۔

سوال یہ ہے کہ دس سال بعد ان تینوں کے خیالات کیا ہوں گے؟ کیا تب بھی راجیش مسلمانوں کو ہندو مذہب قبول کرنے پر مجبور کرے گا، کیا روڈولف جرمن نسل کو برتر ہی سمجھے گا اور کیا عبد الرشید غیر مسلموں کو واجب القتل کہے گا؟ یقیناً ایسا نہیں ہو گا۔ ان تینوں کے نظریات وہ نہیں رہیں گے جن پر وہ اپنی یادداشت کھو جانے سے پہلے کاربند تھے بلکہ اب ان کے نظریات وہ ہوں گے جو ان کے ذہن کی سلیٹ پر گزشتہ دس برسوں میں لکھے جائیں گے۔ اس فرضی تجربے میں ہم ایک کام مزید کریں گے کہ ان تینوں افراد کو ان کی گزشتہ زندگی کی فلم دکھائیں گے جب یہ تینوں اپنے پر تشدد نظریات کا پرچار کرتے تھے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ کیا انہیں یقین آئے گا کہ وہ ماضی میں اس قسم کے نظریات رکھتے تھے؟ شاید وہ اس فلم کو ہی جعلی قرار دے ڈالیں۔

روڈولف بیکر، راجیش پال اور عبد الرشید کو اگر اپنے اپنے ملک میں اختیار مل جائے تو وہ والہانہ عقیدت کے ساتھ اپنی مرضی کا نظام نافذ کریں گے اور اسی کو درست سمجھیں گے۔ لیکن یہی لوگ اگر اپنی یاد داشت کھو بیٹھیں اور پھر بالکل مختلف ماحول میں ان کی پرورش ہو تو وہ اپنے ہی خیالات کے منکر ہو جائیں گے۔ حقیقی زندگی میں ایسا تجربہ کرنا ممکن نہیں مگر نہ جانے کیوں میری خواہش ہے کہ ہماری یاد داشت بھی ایسے ہی ختم ہو جائے اور پھر کوئی نئے سرے ہماری پرورش کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments