جواد نظیر: پانچواں درویش


لاہور میں ایک بار امتحانات کے دوران نقل کرانے کے الزام میں پولیس نے سکول کے اساتذہ کو مرغا بنا دیا اور تصاویر اتار کر اخبارات میں شائع کرا دیں۔ اس معاملے پر روزنامہ جنگ نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور پولیس کے اعلیٰ حکام کو ہدف تنقید بنایا کہ قوم کے معماروں سے ایسا سلوک بنتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں سب فرشتے ہیں، کسی کی ایک غلطی پر اس کا رتبہ اور مقام بدل جاتا ہے۔

یہ بڑے دبنگ اور دانشورانہ سوچ کے حامل شخص کے خیالات تھے جس کا نام جواد نظیر تھا۔ اپنے صحافتی کیرئیر میں بہت کم ایسے لوگ دیکھے جو اپنے موقف پر ڈٹ جاتے، جواد نظیر حقیقت میں ایک درویش تھے، جنہوں نے مجھ جیسے نئے آنے والوں کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھا کہ وہ صحافتی امور کی انجام دہی میں کہیں مفادات کی طوفان میں بہہ نہ جائیں۔

فروری 1991 میں میرے استاد حسین نقی صاحب نے مجھے جواد نظیر سے متعارف کرایا اور کہا کہ جنگ میں یہی شخص ہے جس کے پاس میں تمھیں بھیج سکتا ہوں کیونکہ وہ کئی سے بہتر ہے۔ اور جب میں گیا انہیں بے نظیر ہی پایا۔ انہوں بڑی شفقت سے میری رہنمائی کی، اور وہ جلد ہی میرے ساتھ ایک فرینک ماحول میں آگئے جس پر مجھے زیادہ تعجب ہوا، وجہ بھی کچھ ایسی نکلی کہ میرے بڑوں میں سے کئی ان کے جاننے والے تھے۔ انہوں نے میرا گھر میں پکارا جانے والا نام انہیں بتایا کہ وہ تمھارے پاس ہوتا ہے۔ انہوں نے اس دن سے مجھے نیوز روم میں اسی نام سے بلانا شروع کردیا۔ یہ مجھے اس وقت اچھا نہ لگا کیونکہ کے باقی کولیگ بھی اسی نام سے پکارنے لگے۔ لیکن ایک دن منو بھائی نے نام لیا تو میں بہت خوش ہوا۔

جواد نظیر سے بے شمار لوگوں کو اختلاف رہتا تھا وہ دو ٹوک بات کر دیتے جب نیوز ایڈیٹر رہے، کسی کا دباؤ قبول نہ کیا۔ بڑی پراعتماد شخصیت کے مالک کبھی کسی سے مرعوب نہ ہوئے۔

خبر میں کہاں اصل بات ہے یہ اکثر ہم لوگ بھول جاتے لیکن انہوں نے یہ گُر بھی سکھایا۔ کس جملے یا کس لفظ پر زور دینا ہے ان کی مہارت تھی۔ طبیعت میں بیک وقت نرمی اور غصہ دونوں پایا جاتا، دوسرا کوئی دل میں بات رکھ لیتا مگر جواد صاحب زیادہ دیر نہیں رکھ پاتے۔

انسان میں اچھائیاں اور برائیاں ساتھ ساتھ ہوتی ہیں، ہم کبھی کبھار کسی بھی انسان کے کمزور پہلوؤں کو لے کر پوسٹ مارٹم شروع کر دیتے ہیں۔ جواد نظیر کے کچھ اصول تھے جنہیں دیکھ کر ہی اس انڈسٹری کے بڑے انہیں اپنے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کرتے۔ سب سے بڑے گروپ سے ایک طویل وابستگی بھی اسی کا ثبوت ہے۔ میری ناقص معلومات اور مشاہدے کے مطابق نہ صرف روزنامہ جنگ بلکہ تین نئے اخبارات کامیابی سے نکالنے کا کریڈٹ بھی انہیں جاتا ہے۔ جواد نظیر صاحب کو بولتے اور خبروں میں لفظوں سے کھیلتے دیکھ چکے تھے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ ان کی تحریر بھی بڑی پرمغز اور معلومات سے بھرپور ہے۔ جواد صاحب کو بڑے سنیئر صحافیوں کی صحبت بھی حاصل تھی، جن میں عباس اطہر،حسین نقی، منو بھائی، اور کئی دوسرے نام تھے، جن کے اثرات بھی ان کی شخصیت میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ۔

پانچواں درویش کے عنوان سے کالم نگاری کرکے انہوں نے اپنا نیا تعارف بنایا، اخبار کے قاری نہیں جانتے تھے کہ یہ درویش ہی انہیں کئی برس تک معیاری خبروں میں ایک مختلف سوچ دیتا رہا ہے۔

جواد صاحب ایک تخلیقی ذھن کے مالک تھے جنہیں اس بڑے اخباری گروپ اور خصوصاً اس کے مالک نے ایک گوہر نایاب کے طور پر استعمال کیا۔ جب بھی وہ کسی اور ادارے سے وابستہ ہوئے انہیں دوبارہ لے آئے۔

جواد نظیر میں ایک انقلابی تھا۔ وہ بائیں بازو کی سوچ سے وابستہ نہیں تھے نہ ہی مذہبی خیالات رکھتے لیکن انہوں نے اپنے نظریات بڑے واضح رکھے۔ قدامت پسندی اور تنگ نظری کے ماحول میں روشن خیالی کو تقویت پہنچائی۔ حکمرانوں سے ٹکر لینے والے صحافیوں میں سے یہ شاید آخری پیڑی تھی، ہم نے دیکھا یہ وہ تھے جنہوں نے مالکان سے بھی خبر کے معاملے میں اپنی بات منوائی۔ یہی وجہ تھی کہ مفادات کی جنگ لڑنے والے انہیں اپنے سے دور بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے لیکن انہیں فرنٹ لائن سے ہٹا بھی دیا گیا۔ جواد صاحب نہیں، مالکان کئی بار مصلحت پسندی کا شکار ہوگئے۔ ان کے دبنگ مزاج کو کئی مالکان برداشت نہ کر پائے۔

افسوس ایک اچھے صحافی کو محض اس لیے ضائع کردیا جاتا ہے کہ وہ ان کے مفادات کی دوڑ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کی صلاحیتیں ماند نہیں پڑی ہوتیں۔ یہ حقیقی معنوں میں درویش ہیں، جنہیں صرف لفظ کی حرمت کا پاس ہوتا ہے وہ روزگار کی دنیاوی مجبوریوں میں جکڑے نہ ہوں تو شاید اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر کبھی ایک طرف بیٹھنا بھی قبول نہ کریں۔ اصول پسندی کی سزا دراصل ان کا اعزاز اور فخر ہوتا ہے۔

جواد نظیر کی باتیں اور یادیں بھی اس کا ثبوت ہے جنہیں ان کے ساتھ کام کرنے والے بطور گواہ آنے والی نسلوں کو خصوصاً صحافت سے وابستہ لوگوں کو منتقل کرتے رہیں گے۔ ایسے گوہر نایاب ہوتے ہیں جنہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اگر کھو جائیں تو پھر واپس نہیں آتے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar