ملبے کا مالک


موہن راکیش 8 جنوری 1925 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ نئی ہندی کہانی کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ ناول لکھے۔ ہندوستانی تھیٹر میں موہن راکیش کا ایک الگ مقام ہے۔ 3 جنوری 1972 کو دہلی میں وفات پائی۔ موہن راکیش کی ہندی کہانیوں کا مجموعہ “پارٹیشن کی دس کہانیاں” بہت مقبول ہوا۔ اس مجموعے کی ایک کہانی “ملبے کا مالک” کا تانا بانا لاہور اور امرتسر کی گلیوں سے بنا گیا۔ ہندی سے اردو ترجمہ: حسان خان

٭٭٭    ٭٭٭

British Maj. Monaghan, left, and Pvt. Farabrother walk through wreckage after riots destroyed parts of the Punjab suburb of Amritsar, India, March 18, 1947.

ساڑھے سات سال کے بعد وہ لوگ لاہور سے امرتسر آئے تھے۔ ہاکی کا میچ دیکھنے کا تو بہانہ تھا، انہیں زیادہ چاؤ ان گھروں اور بازاروں کو پھر سے دیکھنے کا تھا جو ساڑھے سات سال پہلے ان کے لیے پرائے ہو گئے تھے۔ ہر سڑک پر مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی ٹولی گھومتی نظر آ جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں اس انہماک کے ساتھ وہاں کی ہر چیز کو دیکھ رہی تھیں جیسے وہ شہر عام شہر نہ ہو کر ایک اچھا خاصا مرکزِ ثقل ہو۔

تنگ بازاروں میں سے گزرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو پرانی چیزوں کی یاد دلا رہے تھے۔۔۔ دیکھ۔۔ فتح دینا، مصری بازار میں اب مصری کی دکانیں پہلے سے کتنی کم رہ گئی ہیں! اُس نکڑ پر سُکھّی بھٹیارن کی بھٹی تھی، جہاں اب وہ پان والا بیٹھا ہے۔۔۔ یہ نمک منڈی دیکھ لو، خان صاحب! یہاں کی ایک ایک لالائن وہ نمکین ہوتی ہے کہ بس۔۔!

بہت دنوں کے بعد بازاروں میں طرے دار پگڑیاں اور لال ترکی ٹوپیاں نظر آ رہی تھیں۔ لاہور سے آئے مسلمانوں میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہیں تقسیم کے وقت مجبور ہو کر امرتسر سے جانا پڑا تھا۔ ساڑھے سات سال میں آئی ناگزیر تبدیلیوں کو دیکھ کر کہیں ان کی آنکھوں میں حیرانی بھر جاتی اور کہیں افسوس گھِر آتا۔۔ واللہ! کٹرا جئے مل سنگھ اتنا چوڑا کیسے ہو گیا؟ کیا اس طرف کے سب کے سب مکان جل گئے؟۔۔۔ یہاں حکیم آصف علی کی دکان تھی نا؟ اب یہاں ایک موچی نے قبضہ کر رکھا ہے۔

اور کہیں کہیں ایسے بھی جملے سنائی دے جاتے۔۔ ولی، یہ مسجد جوں کی توں کھڑی ہے؟ ان لوگوں نے اسکا گوردوارا نہیں بنا دیا؟

جس راستے سے بھی پاکستانیوں کی ٹولی گذرتی، شہر کے لوگ تجسس سے اُس طرف دیکھتے رہتے۔ کچھ لوگ اب بھی مسلمانوں کو آتے دیکھ کر خوف زدہ سے راستے سے ہٹ جاتے، جبکہ دوسرے آگے بڑھ کر ان سے بغل گیر ہونے لگتے۔ زیادہ تر وہ آنے والوں سے ایسے ایسے سوال پوچھتے کہ آج کل لاہور کا کیا حال ہے؟ انارکلی میں اب پہلے جتنی رونق ہوتی ہے یا نہیں؟ سنا ہے، شاہ عالمی گیٹ کا بازار پورا نیا بنا ہےِ؟ کرشن نگر میں تو کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی؟ وہاں کا رشوت پورہ کیا واقعی رشوت کے پیسے سے بنا ہے؟ کہتے ہیں، پاکستان میں اب اب برقع بالکل اڑ گیا ہے، یہ ٹھیک ہے؟۔۔۔ ان سوالوں میں اتنی اپنائیت جھلکتی تھی کہ لگتا تھا، لاہور ایک شہر نہیں، ہزاروں لوگوں کا سگا رشتے دار ہے، جس کے حال جاننے کے لیے وہ متجسس ہیں۔ لاہور سے آئے لوگ اُس دن شہر بھر کے مہمان تھے جن سے مل کر اور باتیں کر کے لوگوں کو خواہ مخواہ خوشی کا احساس ہوتا تھا۔

بازار بانساں امرتسر کا ایک اجڑا سا بازار ہے، جہاں تقسیم سے پہلے زیادہ تر نچلے طبقے کے مسلمان رہتے تھے۔ وہاں زیادہ تر بانسوں اور شہتیروں کی ہی دکانیں تھیں جو سب کی سب ایک ہی آگ میں جل گئی تھیں۔ بازار بانساں کی وہ آگ امرتسر کی سب سے بھیانک آگ تھی جس سے کچھ دیر کے لیے تو سارے شہر کے جل جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تھا۔ بازار بانساں کے آس پاس کے کئی محلوں کو تو اُس آگ نے اپنی لپیٹ میں لے ہی لیا تھا۔ خیر، کسی طرح وہ آگ قابو میں آ گئی تھی، پر اُس میں مسلمانوں کے ایک ایک گھر کے ساتھ ہندوؤں کے بھی چار چار، چھ چھ گھر جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ اب ساڑھے سات سال میں اُن میں سے کئی عمارتیں پھر سے کھڑی ہو گئی تھیں، مگر جگہ جگہ ملبے کے ڈھیر اب بھی موجود تھے۔ نئی عمارتوں کے بیچ بیچ وہ ملبے کے ڈھیر ایک عجیب ماحول پیش کرتے تھے۔

بازار بانساں میں اُس دن بھی چہل پہل نہیں تھی کیونکہ اُس بازار کے زیادہ تر باشندے تو اپنے مکانوں کے ساتھ ہی شہید ہو گئے تھے، اور جو بچ کر چلے گئے تھے، اُن میں سے شاید کسی میں بھی لوٹ کر آنے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی۔ صرف ایک دبلا پتلا بڈھا مسلمان ہی اُس دن اُس ویران بازار میں آیا اور وہاں کی نئی اور جلی ہوئی عمارتوں کو دیکھ کر جیسے بھول بھلیاں میں پڑ گیا۔ بائیں ہاتھ کو جانے والی گلی کے پاس پہنچ کر اس کے پیر اندر مڑنے کو ہوئے، مگر پھر وہ ہچکچا کر وہاں باہر ہی کھڑا رہ گیا۔ جیسے اسے یقین نہیں ہوا کہ یہ وہی گلی ہے یا نہیں، جس میں وہ جانا چاہتا ہے۔ گلی میں ایک طرف کچھ بچے کیڑا کیڑا کھیل رہے تھے اور کچھ فاصلے پر دو عورتیں اونچی آواز میں چیختی ہوئی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہی تھیں۔

‘سب کچھ بدل گیا، مگر بولیاں نہیں بدلیں۔’ بڈھے مسلمان نے دھیمی آواز میں اپنے سے کہا اور چھڑی کا سہارا لیے کھڑا رہا۔ اُس کے گھٹنے پاجامے سے باہر کو نکل رہے تھے۔ گھٹنوں سے تھوڑا اوپر شیروانی میں تین چار پیوند لگے تھے۔ گلی سے ایک بچہ روتا ہوا باہر آ رہا تھا۔ اُس نے اسے پچکار کر پکارا، ‘اِدھر آ، بیٹے، آ اِدھر! دیکھ، تجھے چِجّی دیں گے، آ!’ اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسے دینے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔ بچہ پل بھر کے لیے چپ کر گیا، لیکن پھر اس نے ہونٹ بسور لیے اور رونے لگا۔ ایک سولہ سترہ برس کی لڑکی گلی کے اندر سے دوڑتی ہوئی آئی اور بچے کی بانہہ پکڑ کر اُسے گھسیٹتی ہوئی گلی میں لے چلی۔ بچہ رونے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بانہہ چھڑانے کے لیے مچلنے لگا۔ لڑکی نے اسے بانہوں میں اٹھا کر اپنے ساتھ چپکا لیا اور اس کا منہ چومتی ہوئی بولی، ‘چپ کر، میرا ویر! روئے گا تو تجھے وہ مسلمان پکڑ کر لے جائے گا، میں واری جاؤں، چپ کر!’

بڈھے مسلمان نے بچے کو دینے کے لیے جو پیسا نکالا تھا، وہ واپس جیب میں رکھ لیا۔ سر سے ٹوپی اتار کر اس نے وہاں تھوڑا کھجایا اور ٹوپی بغل میں دبا لی۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا اور گھٹنے ذرا ذرا کانپ رہے تھے۔ اس نے گلی کے باہر کی بند دکان کے تختے کا سہارا لے لیا اور ٹوپی پھر سے سر پر لگا لی۔ گلی کے سامنے، جہاں پہلے اونچے اونچے شہتیر رکھے رہتے تھے، وہاں اب ایک تین منزلہ مکان کھڑا تھا۔ سامنے بجلی کے تار پر دو موٹی موٹی چیلیں بالکل بے حرکت ہو کر بیٹھی تھیں۔ بجلی کے کھمبے کے پاس تھوڑی دھوپ تھی۔ وہ کئی پل دھوپ میں اڑتے ہوئے ذروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کے منہ سے نکلا، ‘یا مالک!’

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

موہن راکیش
Latest posts by موہن راکیش (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4