جانوروں کی طرح جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی


انسان اور حیوان میں بنیادی فرق اصول حیات کا ہے۔ انسانی زندگی قدم بہ قدم اصولوں اور ضابطوں سے گھری ہوئی ہے مگر حیوان ہر قانون اور اصول سے بے نیاز جدھر چاہتا ہے منہ مارتا ہے۔ انسان زندگی کے ہر لمحہ میں کسی نا کسی تہذیب اور قانون کا پابند ہوتا ہے۔ اس تہذیب و قانون نے ضروری نہیں کہ کسی مذہب اور مسلک کی کوکھ سے جنم لیا ہو بلکہ یہ سماج و معاشرہ کی اپنی پیداوار ہوتے ہیں۔ انسان مذہبی و مسلکی قوانین سے زیادہ سماج و معاشرہ کے قانون پر عمل پیرا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس سماج کا اٹوٹ حصہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مشترکہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے اس لئے ہم مذہب کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہوئے بھی تہذیب کے لحاظ سےایک معلوم ہوتے ہیں۔ مگراب مشترکہ تہذیب پر قانونی حملہ ہو رہا ہے۔ اس معاشرہ کو حیوانوں کی تہذیب سکھائی جارہی ہے اور انسان جانوروں کی تہذیب میں سکون تلاش کر رہا ہے۔ جس طرح جانور کسی بھی مادہ کے ساتھ علی الاعلان اختلاط کرتے نظر آ جاتے ہیں، اب انسان بھی اسی طرح جنسی تعلق قائم کرتے نظر آئیں گے۔

جس طرح ہم سڑک سے گزرتے ہوئے حیوانوں کے جنسی مناظر دیکھ کر شرم سے نظریں جھکا لیتے تھے اسی طرح اب ہم اپنی بہو بیٹیوں کو علی الاعلان جنسی رشتے قائم کرتے دیکھ کر نظریں جھکا کر آگے بڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ہندوستان میں شادی شدہ جوڑوں کو بھی غیر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔ اس آزادی کا احترام یہی کہتاہے کہ ہم اپنی بہو بیٹیوں کے ہر جنسی عمل پر راضی برضا رہیں اور بس! اس قانون کی منظوری کے بعد فحاشی اور بے حیائی کو آئینی درجہ مل گیا ہے اس لئے اب ہم ’بدکردار‘اور’بدکار‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ ایسے الفاظ کو لغت سے بھی نکال دینا چاہئے کیونکہ اب ان الفاظ کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔

ہندوستان میں دفعہ 377 میں ترمیم کے بعد ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی گئی تھی۔ اس کے فوراَ بعد اب دفعہ 497 کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ دفعہ 377 کو آئینی منظوری کے بعد ہم جنس پرستوں نے عید منائی تھی اور اب چھپ چھپا کر عیاشی کرنے والا طبقہ خوشیاں منا رہا ہے۔ قانونی طورپر شادی کے بغیر ایک مرد عورت کے ساتھ جب تک چاہے آپسی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور جب چاہے دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح شادی کے بعد بھی مرد اور عورت کسی غیر مرد کے ساتھ آپسی رضامندی سے جسمانی تعلق قائم کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔ پکڑے جانے پر ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی۔ یعنی اب فحاشی اور بے حیائی کا گھنائونا کھیل گھر کی چاردیواری کے اندر علی الاعلان کھیلا جائے گا۔ ماں باپ، بھائی اور شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی بہو ،بیٹی یا بیوی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سےقانوناَ روک سکیں۔ ایسا کرنے پر ان کے خلاف ہی قانونی کاروائی کا حق محفوظ ہوگا۔

فحاشی اور بے حیائی کے اس قانون کو منظوری ملنے کے بعداب یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہوجائے گا کہ کس بچے کا باپ کون ہے۔ کیونکہ شادی شدہ مرد و خواتین اگر رضامندی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتے ہیں، اس کے نتیجہ میں جو نسل عالم وجود میں آئے گی اس کےسلسلے میں یہ کیسے معلوم کیا جائے گا کہ کس بچہ کا باپ کون ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟ عدلیہ نے فیصلہ سناتے وقت یہ واضح نہیں کیا کہ اگر ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ کئی مرد جنسی تعلقات استوار کرتے ہیں اوران تعلقات کے نتیجہ میں حمل ٹھہرتا ہے تو وہ بچہ کس کا مانا جائے گا۔ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ آج میڈیکل سائنس بہت ترقی کر چکی ہے اس لئے ڈی این اے کے ذریعہ بڑی آسانی سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ بچہ کا اصلی باپ کون ہے۔ مگر پھر سوال قائم رہتا ہے کہ عدلیہ نے اس قانون کو منظوری دینے سے پہلے سرکار سے یہ اعدادو شمار حاصل کئے ہیں یا نہیں کہ آیا ایک وقت میں کتنی خواتین کو ڈی این اے کی یہ سہولت دی جا سکتی ہے؟ اس بچہ کے اخراجات کس پر واجب ہوں گے؟ اس کی تمام ذمہ داریاں ماں ادا کرے گی یا باپ کو یہ فرائض نبھانا ہوں گے؟

حقیقت حال یہ ہے کہ دفعہ 377 اور دفعہ 497 کو ختم کرکے عدلیہ نے ہندوستان میں زنا اور ہم جنس پرستی کی راہیں کھول دی ہیں۔ نئے قانون کے مطابق بیوی شوہر کی ملکیت نہیں رہی اورنہ شوہر پر بیوی کا کوئی حق رہتا ہے۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنے ہی گھر میں کسی غیر عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو بیوی کو استغاثہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح اگر بیوی شوہر کی موجودگی میں کسی غیر مرد کے ساتھ رضامندی کے ساتھ جسمانی رشتے استوار کرتی ہے تو شوہر بیوی پر قانونی لحاظ سے کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا۔ گویا گھروں میں فحاشی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس طرح شادی کا تصور بھی غیر ضروری ہو گیا ہے۔ مرد ہر لمحہ اپنی بیوی پر اور بیوی اپنے شوہر پر نظر نہیں رکھ سکتی۔ ازدواجی زندگی میں یقین اور اعتبار ہی رشتے کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اب یہ اعتبار قانونی طورپر ختم کر دیا گیا ہے۔ شادی کا جو فطری تصورتھا اس کو غیر فطری تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس طرح ان فاحشہ عورتوں اور بے غیرت مردوں کی عید ہوگئی ہے جو اس تعلق کو آئینی حیثیت ملنے سے پہلے مخفی طورپر رشتے قائم کرتے تھے مگر اب انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ اس کے بعد جسم فروشی کے دھندے کو بھی فروغ حاصل ہوگا جس پر قابو پانا اب ناممکن معلوم ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر رضامندی کے ساتھ سیکس کو قانونی حیثیت دیدی گئی تھی تو پھریہ شرط کیوں رکھی گئی کہ شادی شدہ مردو خواتین بھی رضامندی کے ساتھ کسی دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ ہر کسی کو مرضی کے مطابق سیکس کی آزادی ملنے کے بعد اس نئے قانون کی منظوری کی کیا ضرورت پیش آئی تھی؟ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقی اقدار دم توڑ چکی ہیں اور ہمارے دل و دماغ پر مغربی تہذیب و تمدن بری طرح غالب ہے۔ اس غیر فطری تمدن کو فرد کی آزادی اور اس کے فطری حقوق کے نام پر فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ کسی کو مخالفت کا جواز نہ مل سکے۔ عدلیہ سے بھی سوال پوچھا جانا چاہئے کہ اگر مرد اور عورت رضامندی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرتے ہیں، اس کے بعد اس تعلق میں کسی کمزوری، لالچ یا کسی دوسری وجہ سے مرد عورت پر یا عورت مرد پر مقدمہ قائم کرتے ہیں تو کیا عدلیہ اس جسمانی رشتے کو ’’زنا بالجبر‘‘ کے زمرے میں رکھے گی یا پہلے یہ تحقیق کرائی جائے گی کہ آیا یہ جسمانی تعلق رضامندی سے تھا یا جبراَ قائم کیا گیا تھا۔ اب عدلیہ میں ایسے مقدموں کی بھی کثرت ہوگی جن میں یہ معلوم کرنا تقریباَ ناممکن ہوگا کہ مرد و عورت کے درمیان قائم ہو نے والا جسمانی تعلق رضامندی سے تھا یا ’’زنا بالجبر‘‘ کی کوشش تھی۔ محکمہ پولیس کی تشویش ناک صورتحال اور عدلیہ کے محدود ذرائع کے باجود اس طرح کے قانون کو منظوری دینا سوچا سمجھا فیصلہ تو نہیں ہوسکتا۔

فیصلہ سنانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہماری تہذیب میں عورت مرد کی تابع دار تھی غلام نہیں۔ مگر اس فطری تابعداری کو غلامی کا نام دے کر اس طرح پیش کیا گیا کہ عورت اپنے استحصال پر خود رضامند ہوگئی۔ آج عورت کو اس کی آزادی اور حقوق کے نام پر فریب دیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے پیچھے بھی وہی ذہنیت کارفرما ہے جو عورت کو مصنوعی آزادی کے نام پر اپنا شہوانی غلام بنا لینا چاہتی ہے۔ ہندوستان میں شادی کو سات جنموں کا بندھن کہا جاتا ہے۔ عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ سونا تو دور اسکے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتی ہے۔ ہندوستانی عورت نے کبھی اپنے جسم کو غیر کے حوالے نہیں کیا ،اگر کبھی ایسا برا وقت آیا تو اس نے ’ستی‘ ہونے کو ترجیح دی لیکن اپنے جسم پر کسی غیر مرد کے لمس کو برداشت نہیں کیا۔ اس ہندوستان میں جسمانی تعلقات کے ایسے قانون کو منظوری دینا سمجھ سے پرے کی بات ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس طرح کے فیصلہ سنانے والے جسٹس حضرات کس تہذیب کے پروردہ ہیں اور کس ماحول سے اٹھ کر عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں مگر ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تہذیب کو گہرائی سے سمجھنے والا انسان ایسا فیصلہ قطعی نہیں سنا سکتا۔

یہاں بات مذہب اور فرقہ کی حدبندیوں سے پرے کی ہے۔ ہم ذات پات ،مذہب اور مسلکوں میں بٹنے سے پہلے ہندوستانی ہیں۔ ہم کسی بھی مذہب ،ذات اور مسلک سے کیوں نا جڑے ہوں مگر ہماری مشترکہ تہذیب میں ایسی فحاشی اور بے حیائی کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں عورت اپنے دیور اور خسر سے بھی گھونگھٹ کرتی ہے۔ رشتوں کا احترام اور تقدس ملحوظ خاطر رکھا جاتاہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہماری عدلیہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے تاکہ بے حیائی اور فحاشی کو فرد کی آزادی کے نام پر گھریلو ماحول میں فروغ حاصل نہ ہو۔ ورنہ ہمارے سماج کا اللہ ہی حافظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).