آخر ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کا معاملہ کیا ہے؟


 

وفاقی وزیر فواد چوہدری کے لب و لہجے نے پارلیمنٹ سمیت پورے ملک کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ ابھی عمران شاہ کا نئے پاکستان میں پرانا تھپڑ بھولے ہی تھے کہ فواد چوہدری صاحب ایک ٹیکسی والے کو للکارتے نظر آئے۔ انہوں نے پارلمینٹ میں اپنے سیاسی حریفوں کو چور اور ڈاکوؤں کے القابات سے نوازا اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے نیو یارک کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو ریڈیو پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل بنایا۔

اس کے بعد سہیل میمن صاحب نے واشنگٹن پلان پر مہر تصدیق لگاتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کے حوالے بلاگ میں لکھا کہ وہ امریکا جانے سے پہلے بھی صحافی تھے اور وہاں امریکا میں صحافت کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیکسی چلایا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ مرتضیٰ سولنگی پاکستان کے وہ صحافی ہیں جنہوں نے اس دور میں جب کراچی میں بوری بند لاشیں ملا کرتی تھیں، کراچی کی ایک سیاسی پارٹی کے خلاف قلم کے ذریعے آواز بلند کی تھی۔ جس کے بعد ان پر یہاں زمین تنگ کر دی گئی اور مجبوراً انہیں امریکا جانا پڑا۔ مجھے بھی سولنگی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے میں نے ان میں سوائے پروفیشنل ازم کے اور کچھ نہیں دیکھا۔

اکثر صحافی دوست ناراض ہوکر یہ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ مرتضیٰ سولنگی ذات برادری کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر و مشیر ان سے اس لیے ناراض رہتے تھے کو وہ ان کی سفارش نہیں مانتے تھے۔ مرتضیٰ سولنگی سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ ایک پروفیشنل صحافی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی نیلامی پر مرتضیٰ سولنگی ان تمام ریڈیو پاکستان سے پیار کرنے والوں کی طرح ریڈیو پاکستان کو بچانے کے لیے صف اول کے دستے میں نظر آئے۔ آج بھی ریڈیو پاکستان کے وہ ملازمین بھی جن کا ان سے اختلاف رائے تھا یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لیے بس ایک مرتضیٰ سولنگی ہی کافی ہیں کیونکہ سولنگی صاحب کی ریڈیو پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ فواد چوہدری صاحب نے ریڈیو پاکستان کی سپورٹ کرنے پر مرتضیٰ سولنگی کو ٹیکسی والا کہا تھا اور سید خورشید شاہ کو ریڈیو کی تباہی کا ذمہ دار ٹھرایا تھا۔ اب آئیے ایک اور ٹیکسی والے کے بارے میں جانتے ہیں خالد حسن صاحب جو ایک اردو اور انگریزی کے ممتاز صحافی، لکھاری، مترجم اور بھٹو صاحب کے پولیٹیکل ایڈوائزر تھے جنہوں نے انگریزی میں منٹو کا ترجمہ کیا اور جنہیں فیض کے شاگردوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے نہ تو خالد حسن صاحب دوسرے صحافیوں کی طرح بکے نہ ہی کوئی پلاٹ لیا۔ وہ بھی رزق حلال کمانے لیے نیو یارک اور واشنگٹن میں ٹیکسی چلایا کرتے تھے اور یہ عظیم ٹیکسی چلانے والے نہ تو کبھی رشوت لیتے پائے گئے نہ ہی کبھی کسی ہاؤسنگ سوسائٹی سے کوئی منافع بٹورا اور نہ 20 گریڈ کے ڈی ایم جی کے کسی افسر کی طرح قطر کے وفد کے ایک اہلکار کا پرس چوری کرتے پکڑے گئے۔

چائے والا، ٹیکسی والا، دودھ والا، گدھے گاڑی والا جیسی اصطلاحات ہم اکثر و بیشتر اپنے آپ سے کم تر سمجھے جانے والوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس دنیا میں بہت کم لوگ سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہوتے ہیں مگر ایسے لوگوں کا بھی خاندانی پس منظر دیکھا جائے تو ضروری نہیں کہ ابتدا سے ہی وہ خوشحال ہوں نہ جانے کتنے اتار چڑھاؤ کے بعد ایسے حالات دیکھے ہوں۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنا حلال روزی سے کم آمدن ہمارے معاشرے میں ایک جرم بن جاتا ہے جس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ مرتضیٰ سولنگی بھی ایک ایسے ہی غریب بے زمین ہاری کے بچے ہیں جو محنت لگن اور جستجو سے صحافت کے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ سولنگی صاحب کو ایک ٹیکسی والا کہہ کر ان پر تنقید کرنے والے بھی اگر اپنا خاندانی پس منظر دیکھیں تو شاید انہیں بھی بہت سے کسان، مزدور اور ٹیکسی والے نظر آئیں اور شاید آئینے میں انہیں اپنا چہرہ نظر آ جائے۔

 پارلیمان کے فلور پر وزیر اطلاعات نے ایک ٹیکسی والے کو کم تر جان کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک کم تر ٹیکسی والا کیسے پاکستان کے ایک ادارے کا ڈائریکٹر جنرل بن گیا۔ اس حقارت کی نظر سے دیکھنے پر تو پاکستان تحریک انصاف کو چاہیے کہ پھر اپنے منشور سے غریب، مزدور، کسان اور محنت کشوں کو نکال دیے کیونکہ اگر ایک ٹیکسی والے کو اتنا حقیر سمجھا جا رہا ہے تو پھر مدینے کی پہلی فلاحی ریاست کا ڈھنڈورا پیٹنا چھوڑ دیں۔ شاید وزیر صاحب یہ بھول چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں میں اشرافیہ کے ساتھ ساتھ یہ کم تر غریب محنت کش بھی شامل ہیں جو آپ کو شاید آج شدید نا پسند ہیں۔

ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے فیس بک، واٹس اپ گروپ میں تو غیر ملکی مرد و خواتین کی تصاویر کو وائرل کرتے ہوئے دنیا کی مثالیں دیتے پھرتے نہیں تھکتے کہ دیکھو ایک بکریاں چرانے والی ایک ملک کی وزیر بن گئی، کام والی ماسی کی بیٹی بڑی آرمی آفیسر بن گئی، ایک چائے والا ملک کا وزیر اعظم بن گیا، دیکھو یہ ٹیکسی چلانے والا آج ملک کا صدر ہے۔ ہم میئر لندن محمد صادق کے والد کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم ذہنی طور پر کتنی پسماندگی کا شکار ہیں کہ دنیا والوں کی مثالیں دیتے تو نہیں تھکتے مگر جب اپنے ملک میں اس طرح کے عظیم لوگ نظر آئیں تو ہم تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).