سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟


وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقاریر سن کر یہ گمان پختہ ہوگیا کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک میں بریک تھرو کا امکان نہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات کا موجودہ سلسلہ اگلے برس بھارت میں ہونے والے عام الیکشن کے خاتمے تک جاری رہے گا۔

بدقسمتی سے خطے میں تناؤ کم کرنے اور بات چیت کا ماحول پیدا کرنے کا موقع بھارت کی داخلی سیاست کی مجبوریوں کی نذر ہوگیا۔الیکشن کا ہوا مودی سرکار کے سرپراس قدر سوار ہوچکاہے کہ سرکاری سطح پر پاکستان پر نام نہادحملے جسے سرجیکل اسٹرائیک بھی کہاجاتاہے کی سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی۔

اگرچہ سرجیکل اسڑائیک کی حقانیت پر پاکستان ہی نہیں خودبھارت کے اندر بھی بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسے کارنامہ بنا کر پیش کیا جارہاہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ریاستی فورسز کی قہر مانیوں کا سلسلہ بہت دراز ہوچکا ہے۔ خاص کر بی جے پی کے گزشتہ ساڑھے چار سال کشمیریوں کے لیے بہت اذیت ناک رہے۔

اس دوران بی جے پی نہ صرف کشمیر میں مخلوط سرکار بنانے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس کی حامی این جی اوز نے بھارتی آئین کی دفعہ 35-A کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا میں مقدمہ بازی شروع کردی تاکہ جموں وکشمیر کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا دیرینہ خواب پورا کیاجاسکے اور اس کی الگ شناخت کا غصہ بھی تمام کردیا جائے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جوں جوں کشمیریوں پر دباؤ میں اضافہ ہوتاگیا تحریک مزاحمت مضبوط سے مضبوط ترہوتی گئی۔اس دوران چار حقائق بہت نمایاں طور پر سامنے آئے۔ اول؛ کشمیر میں جاری تحریک کی جڑیں بہت گہری ہیں۔اس کی پشت پر بھرپورعوامی حمایت پائی جاتی ہے۔دوم؛ یہ محض پاکستان کی شہ پر چلنے والی تحریک نہیں بلکہ اس کی شناخت داخلی ہے۔

دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ سپر پاور ہی کیوں نہ ہو آبادی کے ایک بڑے حصے کو متحرک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔علاوہ ازیں کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں سرگرم گروہوں نے بھی اپنی سرگرمیاں دھیمی کیں۔ میڈیا میں دھول اڑانے سے گریز کیا، جس کے نتیجے میں تحریک کی داخلی شناخت زیادہ تیزی سے ابھری۔سوم؛کشمیری نوجوان اس تحریک کی قیادت سنبھال چکے ہیں۔

بھارت کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کی سربراہی میں کشمیر کے دورے کرنے والی ایک غیر سرکاری کمیٹی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ کشمیری نوجوان موت سے خوفزدہ نہیں۔اگرچہ نوجوانوں کی اکثریت زیادہ تراحتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے پرامن ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔

چہارم؛ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے سے مسئلے کا حل نکلنے کی کوئی امید نہیں۔اسی طرح طاقت کے بے محابا استعمال سے نوجوانوں کی بڑی تعداد عسکریت کی طرف مائل ہوتی ہے اور حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوجاتاہے۔ چند دن قبل جناب یاسین ملک نے انگلش اخبارمیں لکھے گئے ایک مضمون میں اس صورت حال پر دلچسپ تبصرہ کیا ۔

وہ لکھتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کی اکثریت ہتھیار اٹھانے کو تیار بیٹھی ہے۔ بھارت کو ہمسایہ ملک (پاکستان) کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اس نے سپلائی روک رکھی ہے۔بھارتی پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اس سال 142عسکریت پسندفورسز کے ہاتھوں مارے گئے لیکن اس کے باوجود 87نئے نوجوان ان کی صفوں میں شامل ہوگئے۔

فوجی، سفارتی اور سیاسی دباؤ کے باوجود انسانی حقوق کے علمبرداروں کی کوششوں سے انسانی حقوق کونسل کے سیکریٹریٹ نے کشمیرپر ایک طویل رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ پر بہت لے دے ہوئی لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے رپورٹ کی سفارشات کی تائید کی۔

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کو پیشکش کی کہ پاکستان یک طرفہ طور پر انسانی حقوق کونسل کے حقائق معلوم کرنے والے مشن کو آزادکشمیر کے دورے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔غالباًاسی رپورٹ کا اثر تھا کہ نیویارک ٹائمز نے یکم اگست کو صفحہ اوّل پر کشمیر کے حوالے سے ایک بہت جامع مضمون شائع کیا جس میں بتایاگیا تحریک کی اثر پذیری ناقابل یقین حد تک گہری اور مسلسل وسعت پذیر ہے۔

نیشنل جیوگراف کی سطح کے معتبر ترین جریدے نے بھی جون کی اشاعت میں پیلٹ گن کے متاثرین پر ایک تفصیلی لیکن دردناک رپورٹ شائع کی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل بھی پیلٹ گن سے اندھے کیے جانے والے نوجوانوں کی کہانی دنیا کو سناچکی ہے۔

افسوس! دنیا بالخصوص مغرب اور امریکہ جو انسانی حقوق کا علمبردا ر ہے۔وہ انسانی حقوق کی پامالیوں پر بے چین رہتاہے لیکن کشمیر کا معاملہ سامنے آتاہے تو چپ سادھ لیتاہے۔گزشتہ دودھائیوں کے دوران جو بھی سفارت کار سری نگر جاتاتھا وہ آزادی نواز لیڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال ضرور رکرتا لیکن 2010ء میں یہ سلسلہ بھی بند کردیاگیا۔

ان ممالک کی طرف سے اختیار کردہ اس طرزعمل نے بھارت کے حوصلوں کو بلند کیا اور وہ کشمیر پرکسی بھی قسم کے مذاکراتی عمل میں شریک ہونے سے انکاری ہوگئے۔ حال میں ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا ایک اور موقع گنوادیاگیا حالانکہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سنجیدگی کے ساتھ بھارت کے ساتھ تنازعات کا حل چاہتی تھی اور ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت کا میڈیا بھی کشمیریوں کو مسلسل ملک دشمن اور دہشت گرد کے روپ میں پیش کرتاہے۔چنانچہ بھارتی انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے بھی مشکل ہوچکا ہے کہ وہ کشمیریوں کے لیے انصاف کی بات کریں۔کئی ایک انسانی حقوق کے علمبرداروں کو حال ہی میں پولیس نے گرفتار بھی کیااور انہیں سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔

کشمیری لیڈر شپ ہو یا سماجی کارکن ہر ایک بھارت کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار کرتاہے۔ وزیراعظم عمران خان مذاکرات کا ڈول ڈال رہے تھے تو کشمیریوں کی بھاری تعداد دبے لفظوں میں کہتی تھی کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ۔

اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کو مذاکرات ہی سے مسائل کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ دونوں ممالک کے ہتھیاروں کے ذخائر میں نہ صرف ایٹم پایاجاتاہے بلکہ دونوں سیکنڈ اسڑائیک کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ہوئی تو پاکستان او ربھارت دونوں راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔ یہ کھیت اورکھلیان باقی رہیں گے نہ انسانی حیات۔بھارت مانے یا نہ مانے پاکستان کو مذاکرات کی اپنی پیشکش پر قائم رہنا چاہیے ۔شاہ محمود قریشی صاحب !یہ سفارتی کمزوری کی نہیں طاقت کی دلیل ہے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood