وہ ”پال“ رہے ہیں یا خود اب تک ”پالنے“ میں ہیں


میرے دادا شہاب الدین غوری قیامِ پاکستان کے وقت مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے۔ انہوں نے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان سے محبت کا عجیب عالم تھا۔ سب کچھ اپنے وطن پر قربان کردیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت اپنی جائیداد چھوڑ کر اپنے ملک کی محبت میں دیوانہ وار بھارت کے شہر احمدآباد کو چھوڑا اور کراچی کا رُخ کیا۔ راستے میں کتنے ہی مصائب جھیلے، اپنے خاندان کی عزت و جان کی حفاظت کرتے ہوئے سرزمین پاکستان پر قدم رکھا۔ یہاں آنے کا بعد حال یہ تھا کہ حکومت سے اپنے حصے کی جائیداد کا کلیم فقط اس لیے نہیں کیا کہ وہ نوزائیدہ ملک سے کچھ بھی نہیں لینا چاہتے تھے۔ پاکستان کو دینا اپنا فرض سمجھتے تھے نہ کہ اس ملک سے کچھ لے کر اپنی زندگی عافیت سے گزارنا۔

لہٰذا نہایت کسم پرسی کی حالت میں اس ملک میں زندگی گزارنا شروع کی۔ پہلے کیمپوں میں رہے پھر ایک چھوٹا سا کمرا کرائے پر لیا، کہیں سے ایک سلائی مشین کا انتظام کیا اور کپڑے سینے لگے۔ کام بڑھنے لگا تو اپنے چاروں بیٹوں کو ان کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کام سکھایا۔ یوں محنت کا قطرہ قطرہ جمع ہوتا رہا اور چار میں سے تین بیٹے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے پاکستان کے اہم بینکوں میں ملازم ہوگئے۔ میرے والد صاحب بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔

زندگی بدل گئی۔ اس شہر میں انتھک محنت کے نتیجے میں سب اپنے اپنے ذاتی مکان کے مالک ہوئے۔ دادا نے 1970 میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے انڈیا کا رُخ کیا۔ اس وقت دادا کے بالوں میں چاندی اتر چکی تھی، لیکن بھارت سرکار کے ریکارڈ میں وہ مسلم لیگی رہنما کی حیثیت سے موجود تھے۔ سو وہاں انھیں بہت تنگ کیا گیا۔ وہ مسکراتے رہتے۔ میں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک سکون دیکھا، ایک اطمینان، جیسے کسی سے کوئی شکوہ نہ ہو۔ اپنے ملک کے لیے اتنی محنت اور قربانی دینے کے بعد اور اپنے پیاروں سے دوری اختیار کرنے کے باوجود انھیں اپنے ملک سے کوئی گلہ نہیں تھا بلکہ پاکستان سے بے حد پیار تھا۔ 1995 میں دادا انتقال کرگئے، لیکن ان کی باتیں آج بھی دل ودماغ میں گونجتی رہتی ہیں۔ وہ جب بھی بات کرتے ہم تمام کزنز کو ملک سے محبت کا درس ضرور دیتے اور ملک کو کچھ دینے کی بات کرتے۔

ان کی زندگی ہی میں کراچی میں ایم کیوایم کا دور آیا۔ دادا لسانیت کی بنیاد پر قائم کی گئی اس جماعت سے خوش نہیں تھے۔ ساتھ ہی کراچی میں رہنے والے مہاجروں کی حق تلفی پر بھی انہیں افسوس تھا اور کبھی کبھی اس حوالے سے کوئی سخت بات کہہ جاتے۔

یہ فقط میرے گھر کا قصہ نہیں، کراچی میں رہنے والے لاکھوں مہاجروں کی روداد ہے، جنھوں نے ملک کے لیے قربانی دی اور بدلے میں اس ملک سے کچھ نہ مانگا، بلکہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے معیشت کے پہیے کو یوں چلایا کہ کراچی پورے پاکستان کے لیے سہارا بن گیا اور اب بھی ہے۔ تہذیب و تمدن کی بولتی تصویر یہ مہاجر کل بھی اپنے ملک کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار تھے اور آج بھی ہیں۔ مہاجروں کی پہچان بننے والا کراچی وفاق کے بجٹ کا 67 فیصد حصہ دیتا ہے۔

یہ وہی کراچی ہے جو کہ سونے کی کان کی طرح سندھ کے بجٹ کا 97 فیصد حصہ پورا کرتا ہے۔ یعنی صوبہ سندھ کراچی کی آمدنی پر انحصار کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ شہر مسائل کا شکار اور تباہی سے دوچار ہے۔ بات صرف مسائل تک ہوتی تب بھی سہہ لیتے، لیکن اس شہر کے باسیوں کے لیے بعض لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں اسے برداشت کرنا ممکن نہیں۔ جیسے پیپلزپارٹی کے رہنما سہیل انور سیال صاحب میرے بزرگوں کی قربانیوں کو نظرانداز کرکے سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے جو لوگ آئے ہم نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ زمینیں، اناج اور گھر دیے۔ “ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم آج تک ہندوستان سے آنے والوں کو پال رہے ہیں۔

اس طرح کا بیان پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا، ہر چند سالوں بعد کوئی سیاست داں اٹھ کر قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں اور پاکستان کی ترقی میں پیش پیش رہنے والوں کا دل چھلنی کردیتا ہے۔ ہم پاکستان کو کہاں سے کہاں لے جانے کے خواب دیکھتے ہیں اور اس کے لیے آج تک محنت کر رہے ہیں اور ہمارے نام نہاد سیاست داں اب تک ”پالنے“ سے باہر نہیں آسکے۔ لوٹ مار کرکے نودولتیے بننے والے سونے کا چمچ تو اپنے بچوں کے منہ میں ڈالنے کے قابل ہوگئے لیکن حال یہ ہے کہ دوسروں کے سونے کے چمچے جہاں مل جائیں انھیں ہتھیانے کے لیے آخری حد تک پہنچ جاتے ہیں۔

کراچی کو کھنڈر بنانے والے آج اس شہر کے باسیوں پر کس منہ سے آوازیں کستے ہیں۔ کبھی کراچی ایک بہت خوب صورت صاف ستھرا شہر تھا، جہاں سلیقہ نظر آتا تھا جس کی سڑکیں پر روز دھوئی جاتی تھیں، پھر اس شہر میں بستیاں بسانے اور آباد کاری کے نام پر جو کچھ ہوا وہ زمینوں کی لوٹ مار سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اس صورت حال کے ساتھ قرینے کے اس شہر کو بری طرح بدنظمی کا شکار کر دیا گیا۔ مختلف اداروں میں بٹے ہوئے اس بدقسمت شہر میں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز آپ کو نظر نہیں آئے گی۔

بجلی اور گیس کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس حد تک بلند عمارتیں بننی چاہییں، کتنی بستیاں بسنی چاہیں؟ اس کی کوئی منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ ٹریفک کے مسائل اپنی جگہ کسی آدم خور دیو کی طرح کراچی میں بسنے والوں کو کھا رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس شہر نے کیا نہیں دیکھا۔ لسانی فسادات سے لے کر مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت، بھتے کی پرچیاں، بھتا نہ دینے پر ملنے والی لاشیں، ہڑتالوں کے باعث کاروبار کا پہیہ جام کرنے کی سازشیں، ٹارگٹ کلنگ سے لال ہوتی سڑکیں، اغواء برائے تاوان کام کرتے گروہ۔ اس شہر کے باسیوں پر ہر قیامت گزر چکی ہے۔

گلی محلے کے مسائل ہوں یا کسی بستی اور گاؤں کے معاملات، کوئی قبیلہ ہو یا کمیونٹی، انسانی فطرت اور ہماری سماجی اور اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے کہ ہم کچھ لوگوں کو چُن کر انھیں اپنے فیصلوں کا اختیار دے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں متعلقہ انسانی گروہ میں سب سے زیادہ عقل مند، دیانت دار، بالغ نظر، جرأت مند اور قیادت کے لیے دیگر خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان سے سنجیدگی اور بردبادی کی توقع کی جاتی ہے۔ انھیں رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ قبائلی معاشرے سے جدید جمہوریت تک دنیا کے ہر خطے میں یہی روایت رہی ہے، لیکن ہم دوسروں سے خاصے الگ ہیں۔ ہم اپنے معاملات نمٹانے اور مسائل کے حل کے لیے جو قیادت منتخب کرتے ہیں وہ کیسی ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں ”مقدس ایوان“ میں زہر اگلتے ہمارے رہنماؤں سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ نازیبا اشارے، تھپڑ، گالیاں، ہاتھاپائی، یعنی وہ سب کچھ یہاں ہوتا ہے جو کسی چوک پر لڑنے والے جاہل افراد کی لڑائی یا بحث میں ہوسکتا ہے۔ اور اس طوفانِ بدتمیزی میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان کے لفظ کسی خاص کمیونٹی کو کس حد تک تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔

سندھ حکومت کی طرف سے وفاق سے اپنے حصہ کا مطالبہ تو کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے لیکن بجٹ منظوری کے بعد بھی پچھلے دس سالوں سے سندھ حکومت نے کراچی کی ترقی سے لاپرواہی برتی، اور اگر چند سکے خرچ کر بھی دیے جائیں تو اس میں کام سے زیادہ تشہیری عوامل کر مدِنظر رکھا جاتا ہے۔

سندھ پر حکومت کرتی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صاحب کی تقریریں اس بات کا کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ سند اور کراچی کے عوام کے لیے مخلص ہیں، لیکن فقط تقریروں سے نظام درست نہیں کیے جاسکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تقریریں آج بھی لوگوں کے کانوں میں گونجتی ہیں، پرویز مشرف جب تقریر کرتے تھے تو ان سے بہتر لیڈر کوئی معلوم ہی نہیں ہوتا تھا اور اب عمران خان صاحب کی خوب صورت تقریر نے عوام کو حالات بہتر ہونے کی نوید دی ہے۔ لیکن کیا کراچی کے عوام جو یہ سمجھتے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے جا رہا ہے کیا ٹھیک ہوگیا؟

وزیرِاعظم کی دھواں دار تقریر کے بعد بھی کراچی میں ڈاکوراج قائم ہے، ڈکیتیوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس وقت کراچی لاقانونیت کا بدترین منظر پیش کر رہا ہے۔ لوگوں میں خوف ہراس پھیلا ہوا ہے۔ کم سن بچے ماؤں کی گود سے فقط پچاس ہزار روپوں کے عوض زبردستی چھین کر اغواء کار گروہوں کے ہاتھ فروخت کیے جارہے ہیں۔ نفسیاتی دباؤ کا شکار کراچی کے وہ عوام جن کے اجداد نے اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں ہمارے رہنماؤں کی طرف سے تضحیک آمیز بیان نفرتوں کی آگ کو بھڑکانے کی سازش کی سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت جس مشکل دور سے گزر رہا ہے اس میں نفرت کی آگ جلانا ملک دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ رہنماؤں اور سیاست دانوں سے کچھ تو بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے وہ عوام کے مسائل حل نہیں کرسکتے تو ان میں اضافہ بھی نہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).